کے لئے شرط یہ ہے کہ جو الہام اخباروں میں درج کرائے جائیں وہ ایسے ہوں کہ ہر ایک اُن میں سے امور غیبیہ پر مشتمل ہو اور ایسے امور غیب ہوں جو انسانی طاقتوں سے بالاترہوں اور پھر ایک سال کے بعد چند منصفوں کے ذریعہ سے دیکھا جائے گا کہ کس طرف غلبہ اور کثرت ہے اور کس فریق کی پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں اور اس امتحان کے بعد اگر فریق مخالف کا غلبہ رہا اور میرا غلبہ نہ ہوا تو میں کاذب ٹھہروں گا ورنہ قوم پر لازم ہوگا کہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر آئندہ طریق تکذیب اور انکار کو چھوڑ دیں اور خدا کے مرسل کا مقابلہ کرکے اپنی عاقبت خراب نہ کریں۔ اور یاد رہے کہ جن اعتراضوں کو وہ پیش کرتے ہیں اگر ان سے کچھ ثابت ہوتاہے تو بسؔ یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اُن کے دل تعصب کے غبار اور تاریکی سے بھر گئے ہیں اور اُن کی آنکھوں پر بُغض اور حسد کے پردے آگئے ہیں مثلاً بار بار یہ پیش کرنا کہ ڈپٹی آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیا یہ ایمانداری کا اعتراض ہے کہ آتھم کی نسبت پیشگوئی پوری نہ ہوئی کیا یہ سچ نہیں ہے کہ گیار۱۱ہ برس سے بھی زیادہ عرصہ گذر چکا ہے کہ آتھم مرگیا اور اب زمین پر اُس کا نام و نشان نہیں اور اُس کا رجوع کرنا قریباً ستر آدمیوں کی گواہی سے ثابت ہے جبکہ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عین مجلس مباحثہ میں دجّال کہنے سے رجوع کیا اور پھر پندرہ مہینے تک روتا رہا اور یہ پیشگوئی شرطی تھی جیسا کہ پیشگوئی کے یہ لفظ تھے کہ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے پھر جبکہ اس نے رجوع کر لیا اور ان گواہوں کے رُو برو رجوع کیا جن میں سے اب تک بہت سے زندہ ہیں تو پھر اب تک اعتراض کرنے سے باز نہ آنا کیا کسی پاک طینت کی علامت ہے۔
ایسا ہی محض تعصّب اور جہالت سے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ احمد بیگ کے داماد کی نسبت بھی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور دیانت کا حال یہ ہے کہ اس اعتراض کے وقت احمد بیگ کا نام بھی نہیں لیتے کہ اُس پر کیا حقیقت گذری اور محض خیانت کے طور پر پیشگوئی کی ایک