نمک پھانک لیا اور دماغ پر بخار چڑھ گئے اور سانس رُک گیا اورگلا گھونٹا گیا پس اس طرح پر خدا نے اُس کو شفا دی اور کشفی پیشگوئی پوری کی۔ ۱۸۷۔ نشان۔ میرے بڑے بھائی جن کا نام میرزا غلام قادر تھا کچھ مُدّت تک بیماررہے جس بیماری سے آخر اُن کا انتقال ہوا جس دن اُن کی وفات مقدّر تھی صبح مجھے الہام ہوا کہ جنازہ۔ اور اگرچہ کچھ آثار اُن کی وفات کے نہ تھے مگر مجھے سمجھایا گیا کہ آج وہ فوت ہو جائیں گے اور میں نے اپنے خاص ہم نشینوں کو اِس پیشگوئی کی خبر دے دی جو اَب تک زندہ ہیں۔ پھر شام کے قریب میرے بھائی کا اؔ نتقال ہو گیا۔ اِن تمام پیشین گوئیوں میں جو اِس جگہ لکھی گئی ہیں میں نے اختصار کے خیال سے بہت کم گواہوں کا ذکر کیا ہے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار گواہ ہیں جن کے رو برو یہ پیشین گوئیاں کی گئیں۔ اور پوری ہوئیں بلکہ بعض پیشگوئیوں کے تو کئی لاکھ گواہ ہیں۔ میرا ارادہ تھا کہ ان نشانوں کو تین سو تک اس کتاب میں لکھوں اور وہ تمام نشان جو میری کتاب نزول المسیح اور تریاق القلوب وغیرہ کتابوں میں لکھے گئے ہیں اور دوسرے نئے نشان اِس قدر اس میں لکھ دوں کہ تین۳۰۰ سو کا عدد پوراہو جائے مگر تین روز سے میں بیمار ہو گیا ہوں اور آج اُنتیس۲۹ ستمبر ۱۹۰۶ء کو اِس قدر غلبہ مرض اور ضعف اور نقاہت ہے کہ میں لکھنے سے مجبور ہو گیا ہوں اگر خدا نے چاہا تو حصۂ پنجم براہین احمدیہ میں یہ تین۳۰۰ سو نشان یا زیادہ اس سے لکھے جاویں گے بالآخر اس قدر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر ان نشانوں سے کسی کا دل تسلی پذیر نہ ہو اور ایسا شخص اُن لوگوں میں سے ہو جو الہام اور وحی کا دعویٰ کرتے ہیں تو اُس کے لئے یہ دوسری راہ کھلی ہے کہ وہ میرے مقابل پر اپنے الہام اپنی قوم کے دو اخباروں میں ایک سال تک شائع کرتا رہے اور دوسری طرف میں وہ تمام امور غیبیہ جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوں اپنی جماعت کے دو اخباروں میں شائع کروں اور دونوں فریقوں