۱۷۲ؔ ۔نشان۔ ایک مرتبہ کشفی عالم میں میرے پر ظاہرکیا گیا کہ کوئی سمن سرکاری میرے نام آیا ہے اور مجھے کسی کچہری میں کسی گواہی کے لئے بُلایا ہے اور میں اس کچہری میں گیا ہوں اور حاکم انگریز ہے تب اس نے بغیر حلف دینے کے جیسا کہ قانون ہے میرا اظہار لکھنا شروع کیا اور وہ تمام اظہار بغیر حلف کے ہی لکھا گیا بعد اس کے کشفی حالت جاتی رہی اور میں نے یہ کشف اپنا اپنے بہت سے دوستوں کو اُسی وقت سُنا دیا چنانچہ اُن میں سے خواجہ کمال الدین بی اے پلیڈر اور اخویم مولوی حکیم نوردین صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ہیں۔ پھر اُسی دن یا دوسرے تیسرے دن ملتان کے صاحب ڈپٹی کمشنر کا سمن ایک گواہی کے لئے میرے نام آگیا جب میں گواہی کے لئے صاحب ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں حاضر ہوا تو صاحب ڈپٹی کمشنر نے میرا اظہار لکھنا شروع کیا اور حلف دینا بھول گئے جب کُل اظہار لکھا گیا تو بعد میں حلف یاد آیا اس دوسرے حصہ کے گواہ شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر اور مولوی رحیم بخش صاحب پرائیویٹ سیکرٹری نواب صاحب بھوپال اور کئی لوگ ہیں۔
۱۷۳۔ نشان۔ چراغ دین ساکن جموں جب میری بیعت سے مُرتد ہو کر مخالفوں میں جا ملا تو اُس نے صرف گالیوں پر بس نہ کی بلکہ اپنے الہام اور وحی کا بھی دعویٰ کیا اور عام طور پر لوگوں میں شائع کیا کہ خدا تعالیٰ کی وحی سے مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ شخص یعنی یہ عاجز دجّال ہے تب میں نے اپنی کتاب دافع البلاء و معیار اہل الاصطفاء کے صفحہ ۲۳ کے حاشیہ پر وہ الہام شائع کیا جو چراغدین کی نسبت مجھ کو ہوا اور وہ یہ ہے انّی اذیب من یریب اور اُردو میں اس کی نسبت یہ الہام ہوا میں فنا کر دوں گا میں غارت کر دوں گا میں غضب نازل کروں گا اگر اُس نے یعنی چراغ دین نے شک کیا اور اس پر یعنی میرے مسیح موعود ہونے پر ایمان نہ لایا اور مامور من اللہ ہونے کے دعویٰ سے توبہ نہ کی یہ پیشگوئی چراغ دین کی موت سے تین برس پہلے کی گئی تھی جیسا کہ رسالہ دافع البلاء کی تاریخ طبع سے ظاہر ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں کہ مَیں پہلے بھی اس پیشگوئی کو لکھ آیا ہوں یا نہیں اگر ؔ پہلے لکھی گئی ہے تو یہ نشان اس کتاب میں گذر چکا ہے اور اس جگہ اس نشان کا مکرر لکھنا