راقم ؔ عاجز نے اس اقرار نامہ کو بغرض اشاعت دار الامان میں بخدمت بابو محمد افضل صاحب مرحوم ایڈیٹر البدر کے روانہ کیا انہوں نے یہ لکھ کر کہ ہم ایسے مضامین کو اپنے اخبار میں درج نہیں کرتے واپس کردیا گرد نواح کے علاقہ میں بھی اس پیشگوئی کی شہرت ہو گئی اور لوگ کہنے لگے کہ دیکھا چاہئے اب کون جیتتا ہے مرزا قادیانی یا مرزا دو المیالی بلکہ مخالف لوگ نماز کے بعد اپنے فقیر مرزا کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگنے لگے۔ ایک دن ایک ہندو سارجنٹ فقیر صاحب کو سراج الاخبار پڑھ کر سنا رہا تھا کہ حکیم فضل دین سخت بیمار ہے چارپائی اُٹھا کر گورداسپور کی عدالت میں لائے ہیں اس خبر کے سُننے سے ملہم صاحب خوش ہو کر کہنے لگے کہ اب مرزا قادیانی کی تباہی کا وقت آگیا ہے اور اس کے آثار ظاہر ہو پڑے ہیں مگر بیچارے کو کیا معلوم کہ ادھر میری تباہی کی تیاریاں ہو رہی ہیں تھوڑا ہی عرصہ گذرا کہ علاقہ میں طاعونی لشکر نے ڈیرے لگا دئے۔ مُلہم صاحب کو اپنے الہامات پراس قدر فخر تھا کہ میرے طفیل میرا تمام محلہ طاعون سے محفوظ رہے گا جب دوسرا رمضان آیا تو اُس کے محلہ میں طاعون شروع ہو گئی۔ اس وقت یہ چار آدمی گھر میں موجود تھے ایک ملہم دوسری ملہم کی بیوی تیسری لڑکی چوتھی لڑکے کی زوجہ پہلے ملہم کی بیوی کا طاعون سے انتقال ہو گیا پھر خود فقیر صاحب ۵یا۶؍رمضان ۱۳۲۲ھ کی شام کو سخت طاعون میں مبتلا ہو گئے ساتھ ہی زبان بند ہو گئی شدت ورم اور حبسِ دم کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا آنکھوں سے خون ٹپک رہا ہے آخر پورے ایک سال کے بعد جس روز پیشگوئی کی گئی تھی یعنی ۷؍رمضان ۱۳۲۲ھ کو ہلاک ہو گیا دو لڑکیاں جو پیچھے رہ گئی تھیں وہ بھی تھوڑے دنوں کے بعد سخت بیمار ہو گئیں۔ راقم کو علاج کے واسطے بُلا کر لے گئے میں اُن کی حالت دیکھ کر ڈر گیا۔ علاج کرانے والوں کو کہا کہ اس گھر میں خدا کا غضب نازل ہو رہا ہے تم اپنی ہمشیرہ کو گھر لے جاؤ وہ گھر میں لے گئے اور مریضہ کچھ دن بعد اچھی ہو گئی جو ملہم کی لڑکی تھی وہ اُسی گھر میں دوسرے روز باپ سے جا ملی اور بجائے ۲۷؍ رمضان کے ۷؍رمضان کو حضرت مرزا صاحب قادیانی کے سلسلہ کے عوض مرزا دو المیالی کے گھر کا سلسلہ تباہ ہو گیا۔
دوسرا نشان یہ ہے کہ صوبیدار غلام محمد خان کے لڑکے عطا محمد کو ایک دیوانے کُتے نے