اور ماسٹر عبد الرحمن صاحب اور ماسٹر شیر علی صاحب بی.اے. اور حافظ عبد العلی صاحب اور بہت سے دوستوں کو اطلاع دی گئی۔ تب میں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہ میرے مُنہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی اور میں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اول کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الھامیہ رکھا گیا لوگوؔ ں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دوسو۲۰۰ کے قریب ہو گی سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے مُنہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا چنانچہ تمام فقرات چھپے ہوئے موجود ہیں جن کا نام خطبہ الہامیہ ہے۔ اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ کیا کسی انسان کی طاقت میں ہے کہ اتنی لمبی تقریر بغیر سوچے اور فکر کے عربی زبان میں کھڑے ہو کر محض زبانی طور پر فی البدیہ بیان کر سکے یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدانے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیرپیش نہیں کر سکتا۔ ۱۶۶۔ نشان۔ مجھے دو بیماریاں مدت دراز سے تھیں ایک شدید درد سر جس سے میں نہایت بیتاب ہو جاتا تھا اور ہولناک عوارض پیدا ہو جاتے تھے اور یہ مرض قریباً پچیس۲۵ برس تک دامنگیر رہی اور اس کے ساتھ دوران سر بھی لاحق ہو گیا اور طبیبوں نے لکھا کہ ان عوارض کا آخری نتیجہ مرگی ہوتی ہے چنانچہ میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر قریباً دو ماہ تک اسی مرض میں مبتلا ہو کر آخر مرض صرع میں مبتلا ہو گئے اور اسی سے اُن کا انتقال ہو گیا لہٰذا میں دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ ان امراض سے مجھے محفوظ رکھے۔ ایک دفعہ