بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی خَیْرِ رُسُلِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ
وَ اَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔
بعد ھٰذا واضح ہو کہ مجھے اس رسالہ کے لکھنے کے لئے یہ ضرورت پیش آئی ہے کہ اس زمانہ میں جس طرح اور صدہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہو گئی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ اکثر لوگ اِس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں کوئی خواب یا الہام قابل اعتبار ہو سکتا ہے اور کن حالتوں میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا۔ اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الربّ۔* یادرکھنا چاہئے کہ شیطان انسان کا سخت دشمن ہے وہ طرح طرح کی راہوں سے انسان کو ہلاک کرنا چاہتا ہے اور ممکن ہے کہ ایک خواب سچی بھی ہو اَور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو اورممکن ہے کہ ایک الہام سچا ہو اور پھر بھی وہ شیطان کی طرف سے ہو کیونکہ اگرچہ شیطان بڑا جھوٹا ہے لیکن کبھی سچی بات بتلا کر دھوکا دیتا ہے تا ایمان چھین لے ہاں وہ لوگ جو اپنے صدق اور وفا اور عشق الٰہی میں کمال
* جس طرح جب ایک تو آفتاب پر بادل محیط ہو اور دوسرے ساتھ اُس کے گرد و غبار بھی اُٹھا ہوا ہو تو اس صورت میں آفتاب کی روشنی صاف طور سے زمین پر نہیں پڑ سکتی اسی طرح جب نفس پر اپنی ذاتی تاریکی اور شیطان کا غلبہ ہو تو روحانی آفتاب کی روشنی صاف طور پر سے اُس پر نہیں پڑے گی۔ اور جیسے جیسے وہ گرد و غبار اور ابر کم ہوتا جائے گا روشنی بھی صاف ہوتی جائے گی۔ پس یہی فلاسفی وحی الٰہی کی ہے۔ مصفّا وحی وہی لوگ پاتے ہیں جن کے دل صاف ہیں اور جن میں اور خدا میں کوئی روک نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ وہ الہام جس کے شامل حال نصرت الٰہی ہو اور اکرام اور اعزاز کی اُس میں صریح علامتیں پائی جائیں اور قبولیت کے آثار اُس میں نمودار ہوں وہ بغیر مقبولانِ الٰہی کے کسی کو نہیں ہو سکتا اور شیطان کے اقتدار سے یہ باہر ہے کہ کسی جھوٹے مدعی کی تائید اور حمایت میں کوئی قدرت نمائی کا الہام اُس کو کرے اور اُس کو عزّت دینے کے لئے کوئی خارق عادت اور مصفّاغیب اُس پر ظاہر کرے تا اُس کے دعوے پر گواہ ہو۔ منہ