کہ میں اپنی بریّت کیلئے خدا تعالیٰ کی گواہی اپنے پاس رکھتا ہوں پس کیا تم اس گواہی کو قبول کروگے یانہیں؟ اور یہ بھی ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہاری کسی تہمت سے ملزم نہیں ہوسکتا کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ میری بریّت کے لئے کوئی راہ پیدا کردے گا*۔ یاد رہے کہ جب یوسف بن یعقوب پر زلیخانے بیجا الزام لگایا تھا تو اُس موقعہ پر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3۱۔یعنی زلیخا کے قریبیوں میں سے ایک شخص نے یوسف کی بریّت کی گواہی دی۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اِس یوسف کے لئے خودگواہی دوں گا پس اس سے زیادہ اور کیا گواہی ہوگی کہ آج سے پچیس۲۵ برس پہلے خدا تعالیٰ نے ان تہمتوں کی خبر دی ہے جو ظالم اور شریر لوگ مجھ پرلگاتے ہیں۔ اور یوسف بن یعقوب کے لئے صرف ایک انسان نے گواہی دی مگر میرے لئے خدا نے پسند کیا کہ خود گواہی دے اور یوسف بن یعقوب پر تہمت لگانے کیلئے ایک عورت نے پیش دستی کی مگر میرے پر وہ لوگ تہمتیں لگاتے ہیں جو عورتوں سے بھی کمتر ہیں۔ اور 3۲ کے مصداق ہیں۔ پھر اس پیشگوئی کے آخری حصہ کی یہ عبارت ہے۔333۔ یعنی اے میرے رب مجھے تو قید بہتر ہے اُن باتوں سے کہ یہ عورتیں مجھ سے خواہش
یہ آیت یعنی3۳ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ مَخلصی کی کوئی راہ دکھلا دے گا۔ یہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ کے قصہ میں ہے جب کہ فرعون نے ان کا تعاقب کیا تھا اور بنی اسرائیل نے سمجھا تھا کہ اب ہم پکڑے گئے ہیں پس خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ ایسے کمزور اس جماعت میں بھی ہوں گے جن کی تسلی کے لئے کہا جائے گا کہ گھبراؤ مت۔ خدا تمہیں ان تہمتوں سے بریّت حاصل کرنے کے لئے کوئی راہ دکھادے گا جیسا کہ اس نے یوسف بن یعقوب کو دکھلا دی جب کہ ایک مکّارہ عورت نے پیش دستی کر کے خلاف واقعہ باتیں یوسف کی نسبت اپنے خاوند کو سنائیں۔ منہ