اوّل وہ عیب گیر اور نکتہ چین اور بدگمان لوگوں کو پورے طور پرموقعہ دیتا ہے کہ تا وہ جو چاہیں بکواس کریں اور جس طرح چاہیں کوئی تہمت لگاویں یا بہتان باندھیں۔ پس وہ لوگ بہت خوش ہوکر حملے کرتے ہیں اور اپنے حملوں پر بہت بھروسہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صادقوں کی جماعت ایسے حملوں سے ڈرتی ہے اور انسانی کمزوری کی وجہ سے اس بات سے نومید ہو جاتے ہیں کہ بارانِ رحمت الٰہی اس مفتریانہ داغ کو دھو دے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی عادت ہے کہ بارانِ رحمت نازل توکرتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے لیکن اوّل کسی مدت تک لوگوں کو نومید کر دیتا ہے تا وہ لوگوں کے ایمان کی آزمائش کرے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے نبی اور مرسل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں۔ شریر لوگوں کی طرف سے بہت بیجا حملے خدا تعالیٰ کے نبیوں پرہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ فاسق اور فاجر ٹھہرائے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر واقعہ ہے کہ ا عتراض کرنے والوں کو اعتراض کرنے کے لئے بہت سی گنجائش دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نکتہ چینی اورعیب گیری کی باتوں کو بہت قوی سمجھنے لگتے ہیں اور اُن پرخوش ہوتے اور اتراتے ہیں اور مومنوں کے دلوں کو ان باتوں سے بہت صدمہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ اُن کی کمر ٹوٹتی ہے اور وہ سخت طور پر آزمائے جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کی نصرت کا مینہ برستا ہے ا ور تمام افتراؤں کے ورق کو دھو ڈالتا ہے اور اپنے نبیوں کے اجتباء اور اصطفاء کے مرتبہ کو ثابت کر دیتا ہے۔ خلاصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ اسی طرح اس یوسف کی ہم بریّت ظاہر کریں گے کہ اوّل شریر لوگ بیجا تہمتیں اُس پر لگائیں گے جیسا کہ یوسف بن یعقوب پر تہمت لگائی گئی تھی لیکن آخر خدا نے ایک شخص کو اُس کی بریت کیلئے ایک گواہ ٹھہرایا اور اُس گواہی نے یوسف کو اُس تہمت سے بَری کردیا ۔ پس خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ۔ قل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ ان معی ربّی سیھدین۔ یعنی اے یوسف جو لوگ تیرے پر الزام لگاتے ہیں اُن کو کہہ دے