مجھے قبول کرلیا اور یہ ملک ہماری جماعت سے بھر گیا۔ اور نہ صر ف اسی قدر بلکہ ملک عرب اور شام اور مصر اور روم اور فارس اور امریکہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں یہ تخم بویا گیا اور کئی لوگ ان ممالک سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ وقت آتا جاتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان مذکورہ بالا ممالک کے لوگ بھی اس نور آسمانی سے پورا حصہ لیں گے۔ نادان دشمن جو مولوی کہلاتے تھے اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں اوروہ آسمانی ارادہ کو اپنے فریبوں اور مکروں اور منصوبوں سے روک نہ سکے اور وہ اس بات سے نوامید ہوگئے کہ وہ اس سلسلہ کو معدوم کرسکیں اور جن کاموں کو وہ بگاڑنا چاہتے تھے وہ سب کام درست ہوگئے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ آئندہ زمانہ کے لوگوں کی بیجا تہمتوں کی نسبت ایک خاص پیشگوئی کرکے مجھے یوسف قرار دیتا ہے ۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا وینشر رحمتہ یجتبی الیہ من یشاء من عبادہٖ وکذالک مننّا علٰی یوسف لنصرف عنہ السوء والفحشاء ولتنذر قومًا مّا اُنذراٰباء ھم فھم غافلون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون انّ معی ربّی سیھدین ۔ ربّ السجن احبّ الیّ ممّا یدعوننی الیہ ۔ ربّ نجّنی من غمّی۔ ان آیات کو جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ سے ۵۵۴ تک درج ہیں میں ابھی پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر صفائی بیان کے لئے دوبارہ موقع پر لکھی گئیں تا پیشگوؔ ئی کے معنی سمجھنے میں کچھ دقّت نہ ہو۔ ترجمہ اس وحی الٰہی کا یہ ہے ۔ خدا وہ خدا ہے جو بارش کو اُس وقت اُتارتا ہے۔جبکہ لوگ مینہ سے نومید ہو جاتے ہیں تب نومیدی کے بعد اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔ اور جس بندہ کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے رسالت اور نبوت کے لئے چن لیتا ہے۔ اور ہم نے اِسی طرح اس یوسف پر احسان کیا تاہم دفع کریں اور پھیر دیں اُس سے اُن بُرائی اور بے حیائی کی باتوں کو جو اُس کی نسبت بطور تہمت تراشی جائیں گی۔ یعنی خدا تعالیٰ کا کسی تہمت اور الزام کے وقت جو اُس کے نبیوں اوررسولوں کی نسبت کی جاتی ہیں یہ قانونِ قدرت ہے کہ