فوق الذین کفر وا الٰی یوم القیامۃ۔ یعنی اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا۔ اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیری بریّت ظاہر کروں گا۔ اور وہ جو تیرے پیرو ہیں مَیں قیامت تک ان کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا۔ اس جگہ اس وحی الٰہی میں عیسیٰ سے مراد مَیں ہوں۔ اور تابعین یعنی پیروؤں سے مراد میری جماعت ہے۔ قرآن شریف میں یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے اور مغلوب قوم سے مراد یہودی ہیں جو دن بدن کم ہوتے گئے ۔ پس اس آیت کو دوبارہ میرے لئے اور میری جماعت کے لئے نازل کرنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقدّریوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ؔ ہیں وہ دن بدن کم ہوکر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہوگئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے۔ ایسا ہی اس جماعت کے مخالفوں کاانجام ہوگا۔ اور اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوتِ مذہب کے رُو سے سب پر غالب ہو جائیں گے۔ یہ پیشگوئی فوق العادت کے طور پر پوری ہو رہی ہے کیونکہ جب براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی تھی اُس وقت تو میری یہ حالت گمنامی کی تھی کہ ایک شخص بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرا پیرو تھا۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد اس جماعت کی کئی لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اس ترقی کی تیز رفتار ہے جس کا باعث وہ آفات آسمانی بھی ہیں جو اس ملک کو لقمۂ اجل بنا رہے ہیں۔ پھر بعد اس کے بقیہ وح ئ الٰہی یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کا سردار ہے اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ واضح رہے کہ یہ پیشگوئیاں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں کیونکہ ایسے وقت میں کی گئیں جبکہ کوئی کام بھی درست نہ تھا اور کوئی مراد حاصل نہ تھی اور اب اس زمانہ میں پچیس۲۵برس بعد اس قدر مرادیں حاصل ہوگئیں کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے خدا نے اس ویرانہ کو یعنی قادیان کو مجمع الدیار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں اور وہ کام دکھلائے کہ کوئی عقل نہیں کہہ سکتی تھی کہ ایسا ظہور میں آجائے گا۔ لاکھوں انسانوں نے