منسوب کیا گیا اور اس کو شہرت دی گئی ہے اس غلط شہرت کو ایک عظیم الشان نشان سے ڈھانک دیا جائے گا۔ نادان لوگ نہیں جانتے کہ کن معنوں سے خدا اپنے مقبول بندوں کی طرف ذنب کو یعنی گناہ کو منسوب کرتا ہے کیونکہ حقیقی گناہ جو نافرمانی خدا تعالیٰ کی ہے وہ تو قبل از توبہ قابل سزا ہے نہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو خود ہی اِس بات کا فکر پڑ جائے کہ میں کوئی ایسانشان دکھلاؤں کہ تا وہ نکتہ چینی کے خیالات اور عیب جوئی کے توہمات خود بخود مخفی اور مستور ہو جائیں اور اُن کاذکر کرنے والا ذلیل ہو جائے۔ اسی وجہ سے ائمہ اور اہل تصوف لکھتے ہیں کہ جن لغزشوں کا انبیاء علیھم السّلام کی نسبت خدائے تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کا دانہ کھانا۔ اگر تحقیر کی راہ سے ان کا ذکر کیا جائے تو یہ موجبِ کفر اور سلب ایمان ہے کیونکہ وہ مقبول ہیں اور دنیا جس بات کو ذنبسمجھتی ہے وہ اُس سے محفوظ ہیں اور اُن سے عداوت کرناخدائے تعالیٰ کے حملہ کا نشانہ بننا ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ومن عَادٰی وَلِیًّا لی فقد اٰذنتہ للحرب یعنی جو شخص میرے ولی کا دشمن ہو تو میں اُس کو متنبہ کرتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا۔ غرض اہلِ اِصطفاء خدائے تعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں اور اُس سے نہایت شدید تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی عیب جوئی اور نکتہ چینی میں خیر نہیں ہے۔ اور ہلاکت کے لئے اس سے کوئی بھی دروازہ نزدیک تر نہیں کہ انسان اندھا بن کر محبّان اور محبوبانِ الٰہی کا دشمن ہو جائے۔
اور یاد رہے کہ مغفرت کے صرف یہی معنے نہیں کہ جو گناہ صادر ہو جائے اُس کو بخش دینا بلکہ یہ بھی معنے ہیں کہ گناہ کوحیّز قوت سے حیّز فعل کی طرف نہ آنے دینا اور ایسا خیال دل میں پیدا ہی نہ کرنا ۔ ان پیشگوئیوں میں بھی بار بار خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ایک گمنامی کی حالت کو خدائے تعالیٰ شہرت کی حالت سے بدل دے گا اور گو کتنے فتنے پیدا ہوں گے اُن سب سے خدائے تعالیٰ نجات دے گا۔ اور جیسے اوّل عیب جو اور نکتہ چین تھے آخری حصۂ عمر میں بھی ایسے ہی ہوں گے لیکن خدا ایک ایسی فتح نمایاں ظاہر کرے گا کہ ان نکتہ چینوں