اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باللہ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے سو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے موافق حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میری نسبت بھی یہی وحی کی جو اوپر ذکر ہوچکی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا بڑی بڑی فتوحات اور عظیم الشان نشان تیری تائید میں دکھلائے گا تا وہ اعتراض جو دنیا کے اندھے لوگوں نے تیرے پہلے حصہء زندگی کی نسبت یا اخیر حصہء زندگی کی نسبت کئے ہیں ان سب کا جواب پیدا ہوجائے*۔ کیونکہ عالم الاسرار کی شہادت سے بڑھ کر اور کوئی شہادت نہیں اور ذنب کا لفظ اس اعتبار سے بولا گیا ہے کہ معترض اور نکتہ چین جو حملہ کرتے ہیں وہ اپنے دلوں میں مرسلین کی نسبت ان نکتہ چینیوں کو ایک ذنب قراردے کر حملہ کرتے ہیں۔ پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جو ذنب تیری طرف منسوب کیا گیا ہے نہ یہ کہ حقیقت میں کوئی ذنب ہے اور خود یہ ادب سے دُور ہے کہ انسان اس وحیؔ الٰہی کے یہ معنے کرے کہ درحقیقت کوئی ذنب ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے بخش دیا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ذنب کے نام پر اُن کی طرف خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جو اب گذر رہا ہے جیسا کہ عربی میں وحی الٰہی یہ ہے۔ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدّر وَلا نُبْقِیْ لک من المخزیاتِ ذِکرا۔ یعنی تیری اجل مقدر اب قریب ہے اور ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی باقی نہیں چھوڑیں گے جو موجب رسوائی اور طعن تشنیع ہو۔ اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصہ براہین احمدیہ شائع کیا جائے۔ اور ایسا ہی خدائے عزّوجلّ نے اپنی اس وحی میں میرے قرب اجل کی طرف اشارہ فرمایا۔ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تیرا حادثہ ہو گا۔ منہ