ایک دانہ کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور خاک میں چھپ گیا۔ لیکن آئندہ یہ مقدر ہے کہ اس دانہ کا سبزہ نکلے اور وہ بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ ایک بڑا درخت بن جائے گااور موٹا ہو جائے گااور اپنے پاؤں پر قائم ہو جائے گا جس کو کوئی آندھی نقصان پہنچا نہیں سکے گی۔یہ پیشگوئی اس زمانہ سے پچیس۲۵ برسپہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہے ۔ اور پھر فرمایا کہ خدا تجھے ایک بڑی اور کھلی کھلی فتح دے گا تاکہ وہ تیرے پہلے گناہ بخشے اور پچھلے گناہ بھی۔ اس جگہ اس وحی الٰہی کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح کو گناہ کے بخشنے سے کیا تعلق ہے ۔ بظاہر ان دونوں فقروں کو آپس میں کچھ جوڑ نہیں۔ لیکن درحقیقت ان دونوں فقروں کا باہم نہایت درجہ کا تعلق ہے۔ پس تشریح اُسؔ وحی الٰہی کی یہ ہے کہ اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دشمنانِ حق نے طر ح طرح کے اعتراض تراشے ہیں اور طرح طرح کی عیب جوئی کی ہے وہ باتیں کسی معمولی صالح کی نسبت ہرگز تراشی نہیں گئیں۔ کونسی تہمت ہے جو اُن پر نہیں لگائی گئی اور کونسی نکتہ چینی ہے جو اُن پر نہیں کی گئی۔ پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی