اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کر کہ اے خدا میں مغلوب ہوں وہ بہت ہیں اور میں اکیلا ہوں وہ ایک گروہ ہے تو میری طرف سے مقابلہ کے لئے آپ کھڑا ہوجا۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! توؔ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ابتلاؤں کی نسبت ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جو مخالفت کا بہت شور اُٹھے گا اور وہ گمنامی اور تنہائی کازمانہ ہوگا اور مخالفت پر ایک مخلوق تُل جائے گی اور ظاہری تزلزل دیکھ کر بشریت کے مقتضا سے خیال آئے گا کہ خدا نے اپنی نصرت کو چھوڑ دیا۔ پس خدائے تعالیٰ اس آئندہ زمانہ کو یاد دلاتا ہے کہ اُس وقت خدا دُعاؤں کو قبول کرے گا اور وہ حالت نہیں رہے گی۔ اور دلوں کو اس طرف رجوع پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بہت فتنہ کے بعد جو کافر ٹھہرانے کے فتویٰ سے اٹھا تھا آخر دل اس طرف متوجہ ہوگئے۔ پھر فرماتا ہے کہ اے عبد القادر میں تیرے ساتھ ہوں ۔ مَیں نے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا اور میں تجھ کو ہر ایک غم سے نجات دوں گا مگر اس سے پہلے کئی فتنے تیری راہ میں برپا کروں گا تا تجھے خوب جانچا جائے اور تا فتنوں کے وقتوں میں تیری استقامت ظاہر ہو۔ میں تیرا لازمی چارہ ہوں۔ اور میں تیرے دردوں کا علاج ہوں اور میں ہی ہوں جس نے تجھے زندہ کیا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ میں صدق کی رُوح پھونک دی۔ او ر اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی ۔ یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہوگا وہ تجھ سے محبت کرے گااور تیری طرف کھینچا جائے گا۔ میں نے ایسا کیا تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پاوے اور میرے روبرو تیرا نشو ونما ہو۔ تو اُس بیج کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور وہ ایک چھوٹا سا دانہ تھا جو خاک میں پوشیدہ تھا۔ پھر اُس کا سبزہ نکلا اور روز بروز وہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ بہت موٹا ہوگیا اور اُ س کی ٹہنیاں پھیل گئیں اور وہ ایک پورا درخت ہوکر تنا اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ترقی کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس میں بتلایا ہے کہ اس وقت تو تُو