ممکنؔ ہے کہ ایسے غیب کی باتیں جو نہاں در نہاں تھیں اُس شخص کی طرف منسوب ہوسکیں جو مفتری ہو۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن پر غیبِ کامل کے امور ظاہر نہیں کئے جاتے بلکہ محض اُن بندوں پر جواصطفائاور اجتباء کامرتبہ رکھتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے333 ۱ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو غالب ہونے نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہوں۔
افسوس کا مقام ہے کہ بعض نادان مولوی اور عالم کہلاکر بعض وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت جن میں سے بعض پوری ہوگئیں اور بعض پوری ہونے کو ہیں اعتراض پیش کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ خدائے تعالیٰ اپنے وعید کی نسبت اختیار رکھتا ہے چاہے اُس کو پورا کرے یا ملتوی کردے یہی تمام نبیوں کا مذہب ہے اور اسی پر ردّ بلا کا سلسلہ قائم کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بلا جس کا خدا تعالیٰ نے کسی کی نسبت ارادہ کیا ہے خواہ وہ اُس بلا کو کسی نبی پر ظاہرکرکے پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر فرمادے اورخواہ پوشیدہ رکھے وہ بہرحال بلا ہی ہے ۔ پس اگر وہ کسی طرح رد نہیں ہوسکتی تو پھر صدقہ اور خیرات اور دُعا کی کیوں ترغیب دی ہے۔
خیال میں گزرتے رہے کیونکہ انسان کا اپنا علم اور اپنا اجتہاد غلطی سے خالی نہیں۔ لیکن جب یہ دونوں واقعات بعینہٖ ظہور میں آگئے۔ اور دو بزرگ اس جماعت کے بڑی بے رحمی سے کابل میں شہید کئے گئے تو حق الیقین کی طرح وحی الٰہی کے معنے معلوم ہو گئے اور جب اُس وحی کی تمام عبارت کو نظر اٹھا کر دیکھا تو آنکھ کھل گئی اور عجیب ذوق پیدا ہوا اور معلوم ہوا کہ جہاں تک تصریح ممکن ہے خدا نے تصریح سے اس پیشگوئی کو بیان کر دیا ہے اور ایسے الفاظ اختیار کئے ہیں اور ایسے فقرات بیان فرمائے ہیں کہ وہ دوسرے پر صادق آہی نہیں سکتے۔ سبحان اللہ! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے اس نے ان پوشیدہ باتوں کو ایک زمانہء دراز پہلے براہین احمدیہ میں بتصریح بیان کر دیا۔ منہ