نسبت ہے جو ہجرت کرکے قادیاں میں آگئے۔ سو جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔ یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزارہا نشانوں کا جامع ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی کہ یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے۔ اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اوردوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں ان تمام باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرتِ مدد کو دُور از قیاس و محال سمجھتی تھی۔ ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ دُور دُور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی جن پر وہ چلیں گے۔ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں جن کی کثرت کی خبر بھی قبل از وقت گمنامی کی حالت میں دی گئی تھی تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پرکفایت کرکے ان نشانوں کو تخمیناً دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں۔ بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کیلئے ممکن نہیں ہوا لیکن وہ لوگ جو حق کے طالب ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے گمنامی کے زمانہ میں جس کو قریباً پچیس برس گذر گئے جب کہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور کسی قسم کی شہرت نہ رکھتا تھا اور کسی بزرگ خاندان پیر زادگی سے نہ تھا تا رجوع خلائق سہل ہوتا۔ اس قدر کھلے طور پر آئندہ زمانہ کے عروج اور ترقیات کیؔ خبر دینا اور پھر اُن چیزوں کا اُسی طرح بعدزمانہ دراز وقوع میںآجانا کیا کسی انسان سے ہو سکتا ہے اور کیاممکن ہے کہ کوئی کذّاب اور مفتری ایسا کرسکے۔ مَیں باور نہیں کرسکتا کہ جو شخص پہلے انصاف کی نظر سے اُس زمانہ کی طرف نظر اٹھاکردیکھے جبکہ براہین احمدیہ تالیف کی گئی تھی اور ابھی شائع بھی نہیں ہوئی تھی اور ایک جوڈیشل تحقیقات کے طور سے خود موقع پر آکر دریافت کرے کہ اُس زمانہ میں مَیں کیا چیز تھا اور کس قدرخمول اور گمنامی کے زاویہ میں پڑا ہوا تھا