شکر ادا کرنا پڑا کہ ایک میرے جیسے انسان کو جو کوئی بھی لیاقت اپنے اندر نہیں رکھتا اِس عظیم الشان خدمت سے سرفراز فرمایا اور دوسری طرف بمجرّد اِس وحی الٰہی کے مجھے یہ فکر دامنگیر ہوا کہ ہر ایک مامور کیلئے سنتِ الٰہیہ کے موافق جماعت کا ہونا ضروری ہے تا وہ اُس کا ہاتھ بٹائیں اور اُس کے مددگار ہوں۔ اور مال کا ہونا ضروری ہے ۔ تا دینی ضرورتوں میں جو پیش آتی ہیں خرچ ہو۔ اور سنت اللہ کے موافق اعداء کا ہونا بھی ضروری ہے اور پھر اُن پرغلبہ بھی ضروری ہے تا اُن کے شر سے محفوظ رہیں اور اَمر دعوت میں تاثیر بھی ضروری ہے تا سچائی پر دلیل ہو اور تااس خدمت مفوّضہ میں ناکامی نہ ہو۔ اِن امور میں جیسا کہ تصور کیا گیا بڑی مشکلات کا سامنا نظر آیا اور بہت خوفناک حالت دکھائی دی کیونکہ جبکہ مَیں نے اپنے تئیں دیکھا تو نہایت درجہ گمنام اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاس پایا۔ وجہ یہ کہ نہ تو مَیں کوئی خاندانی پیرزادہ اورکسی گدّی سے تعلق رکھتا تھا تا میرے پر اُن لوگوں کا اعتقاد ہوجاتا اوروہ میرے گرد جمع ہو جاتے جو میرے باپ دادا کے مرید تھے اور کام سہل ہو جاتا۔ اور نہ مَیں کسی مشہور عالم فاضل کی نسل میں سے تھا تا صدہا آبائی شاگردوں کا میرے ساتھ تعلق ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی عالم فاضل سے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہؔ تھا تا مجھے اپنے سرمایہ ء علمی پر ہی بھروسہ ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی جگہ کا بادشاہ یا نواب یا حاکم تھا تا میرے رُعبِ حکومت سے ہزاروں لوگ میرے تابع ہو جاتے بلکہ میں ایک غریب ایک ویرانہ گاؤں کا رہنے والا اور بالکل اُن ممتاز لوگوں سے الگ تھا جو مرجع عالم ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔ غرض کسی قسم کی ایسی عزت اور شہرت اور ناموری مجھے حاصل نہ تھی جس پر میں نظر رکھ کر اس بات کو اپنے لئے سہل سمجھتا کہ یہ کام تبلیغِ دعوت کا مجھ سے ہو سکے گا۔ پس طبعاً یہ کام مجھے نہایت مشکل اور بظاہر صورت غیر ممکن اور محالات سے معلوم ہوا۔ اور علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوئے کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہرگز اُمید نہ تھی کہ قو م