خوش تھا کہ ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب اسی مکان میں اور ٹھیک ٹھیک اسی جگہ کہ جہاں اب ان چند سطروں کے لکھنے کے وقت میرا قدم ہے مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہو کر یہ وحی ہوئی:۔ یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤمِنِیْنَ۔* یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی۔ جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اُس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی۔خ تاکہ تو اُن لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے اُن پر حجت پوری ہو جائے۔ ان لوگوں کو کہہ دے کہ مَیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے مامورہوکر آیا ہوں اور مَیں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا۔ اِس وحی کے نازل ہونے پر مجھے ایک طرف تو خدائے تعالیٰ کی بے نہایت عنایات کا قرآن شریف کے لئے تین۳ تجلّیات ہیں۔ وہ سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اُس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے۔ وَلِکُلِّ اَمْرٍ وَقْتٌ مَّعْلُوْم۔ اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔ منہ