کامل توحید ہے جو مدارِ نجات ہے جس کو اہل اللہ پاتے ہیں۔ پس یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ خدا اُن میں اُترتا ہے کیونکہ خلا اپنے تئیں بالطبع پُر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اُترتا جسمانی طور سے نہیں ہے بلکہؔ اس طور سے ہے جو کیف اور کم سے بلند تر ہے۔ غرض خدا کی خاص تجلّی سے حقیقی راستبازوں میں وہ برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو خدا میں ہیں۔اور اُن کی زندگی معجزانہ زندگی ہو جاتی ہے وہ بدلائے جاتے ہیں۔ اور ان کا وجود ایک نیا وجود ہو جاتا ہے جس کو دنیا دیکھ نہیں سکتی۔ پر سعید لوگ اُس کے آثار کو دیکھتے ہیں۔ چونکہ اب وہ تجلّی موجود ہے اور ایسے آثار تائیداتِ الٰہیہ کے نمایاں ہیں جو ہم میں اور ہمارے غیروں میں مابہ الامتیاز ہیں اس لئے ہم چند ایسے نشان تحریر کرکے حق کے طالبوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جو مامورین کی نسبت سنت اللہ ہے اور شریر متعصّبوں پر خدائے تعالیٰ کی حجت پوری کرتے ہیں۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْکَرِیْمِ الْقَدِیْر۔
باب دوم
اُن نشانوں کے بیان میں جو بذریعہ اُن پیشگوئیوں کے ظاہر ہوئے جو آج سے پچیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھ کر شائع کی گئی تھیں
واضح ہو کہ براہین احمدیہ میری تالیفات میں سے وہ کتاب ہے جو ۱۸۸۰ عیسوی میں یعنی ۱۲۹۷ ہجری میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ اِس کتاب کی تالیف کے زمانہ میں جیسا کہ خود کتاب سے ظاہر ہوتا ہے میں ایک ایسی گمنامی کی حالت میں تھا کہ بہت کم لوگ ہوں گے کہ جو میرے وجود سے بھی واقف ہوں گے۔ غرض اس زمانہ میں مَیں اکیلا انسان تھا جس کے ساتھ کسی دوسرے کو کچھ تعلق نہ تھا اور میری زندگی ایک گوش ۂ تنہائی میں گذرتی تھی اور اسی پر مَیں راضی اور