ہمارے اس قدر بیان سے ثابت ہوگیا کہ سچا مذہب ضرور اس بات کا حاجت مند ہے کہ اُس میں کوئی ایسی معجزانہ خاصیّت ہو کہ جو دوسرے مذاہب میں وہ نہ پائی جائے اور سچا راستباز ضرور اس بات کا حاجتمند ہے کہ کچھ ایسی معجزانہ تائیدات الٰہیہ اُس کے شامل حال ہوں کہ جن کی نظیر غیروں میں ہرگز نہ مل سکے تا انسان ضعیف البنیان جو ادنیٰ ادنیٰ شبہ سے ٹھوکر کھاتا ہے دولتِ قبول سے محروم نہ رہے۔ سوچ کر دیکھو کہ جس حالت میں انسانوں کی غفلت اور وہم پرستی کی یہ حالت ہے کہ باوجود یکہ خدا کے سچے مامورین سے صدہا نشان ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے خدا اُن کی مدد فرماتا ہے پھر بھی وہ اپنی بدبختی سے شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہزارہا نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھاکر طرح طرح کی بدگمانیوں میں پڑ جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں ان کا کیا حال ہوتا کہ ایک مامورمن اللہ کیلئے آسمان سے کوئی امتیازی نشان نہ ملتا اور صرف خشک زہد اور ظاہری عبادت کے دکھلانے پرمدار ہوتا اور اس طرح بدگمانیوں کادروازہ بھی کھلا ہوتا۔ پس خدا جو کریم و رحیم ہے اُس نے نہ چاہا کہ اس کے ایک مقبول مذہب یا ایک مقبول بندہ سے انکار کرکے دنیا میں ہلاک ہوجائے۔ پس اُس نے سچے مذہب پر دائمی نشانوں کی مُہر لگادی اور سچے راستباز کواپنے خارق عادت کاموں کے ساتھ قبولیت کا نشان عطا فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا نے مقبول مذہب او ر مقبول بندہ کو امتیازی نشان عطا کرنے میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور سورج سے زیادہ اُن کو چمکا کر دکھلا دیا اور وہ کام اُن کی تائید میں دکھلائے کہ جن کی نظیر دنیا میں دیکھنے سننے میں نہیں آتی۔ خدا برحق ہے لیکن اُس کا چہرہ دیکھنے کا آئینہ وہ منہ ہیں جن پر اس کے عشق کی بارشیں ہوئیں جن کے ساتھ خدا ایسا ہمکلام ہوا کہ جیسے ایک دوست دوست سے۔ وہ غلبۂ محبت سے دوئی کے نقش کو مٹا کر توحید کی کامل حقیقت تک پہنچے کیونکہ توحید صرف یہی نہیں ہے کہ الگ رہ کر خدا کو ایک جاننا۔ اس توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ عملی رنگ میں یعنی محبت کے کامل جوش سے اپنی ہستی کو محو کرکے خداکی وحدت کو اپنے پر وارد کر لینایہی