تسلی کیونکر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے ۔ اگر کسی میں مادۂ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے۔ اور اگر فسق و فجور سے کوئی بچ گیا ہے تو تہید ستی بھی اس کا باعث ہوسکتی ہے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن کے خوف سے کوئی پارسا طبع بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو۔ پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید درپردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ لہٰذا حقیقی راستبازی کیلئے خدائے تعالیٰ کی شہادت ضروری ہے جو عالم الغیب ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میں پاک ناپاک کے حالات مشتبہ ہوجاتے ہیں اور امان اُٹھ جاتا ہے اس لئے مابہ الامتیاز کی نہایت درجہ ضرورت ہے ۔ اور جس مذہب نے راستباز کیلئے کوئی مابہ الامتیاز کا خلعت عطا نہیں فرمایا یقیناًسمجھو کہ وہ مذہب ٹھیک نہیں ہے اور نور سے بالکل خالی ہے۔ خدا کی طرف سے جو کتاب ہو وہ آپ بھی اپنے اندر مابہ الامتیاز رکھتی ہے اور اپنے پیروکو بھی امتیازی نشان بخشتی ہے۔ غرض بغیر امتیازی نشان کے نہ مذہب حق اور مذہب باطل میں کوئی کھلا کھلا تفرقہ پیدا ہوسکتا ہے اورؔ نہ ایک راستباز اور مکّار کے درمیان کوئی فرق بیّن ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل بدچلن اور فاسق اورفاجر ہو لیکن اُس کی بدچلنیاں ظاہر نہ ہوں۔ پس اگر ایسی صورت میں وہ بھی راستبازی کا دعویٰ کرے جیسا کہ ایسے دعوے ہمیشہ دنیا میں پائے جاتے ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کی طرف سے حقیقی راستباز کیلئے کونسا ایک چمکتا ہوا نشان ہے جس سے وہ ایسے مکّاروں سے الگ کا الگ دکھائی دے اور روز روشن کی طرح شناخت کرلیا جائے۔ حالانکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بنیاد ڈالی گئی ہے سنت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے اور یہی قانونِ قدرت ہے کہ تمام عمدہ اور خراب چیزوں میں ایک امتیازی نشان رکھا گیا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بظاہر سونا اور پیتل ہم شکل ہیں یہاں تک کہ