کتاب نے لکھیں درحقیقت وہ الہامی ہیں یا کسی اور کتاب سے چُراکر لکھی گئی ہیں۔ اور اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ چُرائی ہوئی نہیں ہیں تو پھر بھی ہستی باری تعالیٰ پر وہ کب دلیل قاطع ہوسکتی ہیں۔ اور کب کسی طالب حق کا نفس اس بات پر پوری تسلی پاسکتا ہے کہ فقط وہی عقلی باتیں یقینی طور پر آیت خدا نما ہیں اور کب یہ اطمینان بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں بکلی غلطی سے مبرّا ہیں۔پس اگر ایک مذہب صرف چند باتوں کو عقل یا فلسفہ کی طرف منسوب کرکے اپنی سچائی کی وجہ بیان کرتا ہے اور آسمانی نشانوں اور خارق عادت امور کے دکھلانے سے قاصر ہے توایسے مذہب کا پیرو فریب خوردہ یا فریب دہندہ ہے او روہ تاریکی میں مرے گا۔ غرؔ ض محض عقلی دلائل سے تو خدائے تعالیٰ کا وجود بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ کسی مذہب کی سچائی اُس سے ثابت ہوجائے۔ اور جب تک ایک مذہب اس بات کاذمہ وار نہ ہو کہ وہ خدا کی ہستی کو یقینی طورپر ثابت کرکے دکھلائے تب تک وہ مذہب کچھ چیز نہیں ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو ایسے مذہب پر فریفتہ ہو۔ہر ایک وہ مذہب *** کا داغ اپنی پیشانی پر رکھتا ہے جو انسان کی معرفت کو اُس مرحلہ تک نہیں پہنچا سکتا جس سے گویا وہ خدا کو دیکھ لے۔ اور نفسانی تاریکی روحانی حالت سے بدل جائے اور خدا کے تازہ نشانوں سے تازہ ایمان حاصل ہوجائے۔اور نہ صرف لاف کے طور پر بلکہ واقعی طور پر ایک پاک زندگی مل جائے ۔ انسان کو سچی پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ اُس زندہ خدا کا اُس کو پتہ لگ جائے جو نا فرمان کو ایک دم میں ہلاک کرسکتا ہے اور جس کی رضا کے نیچے چلنا ایک نقد بہشت ہے ۔ اور جس طرح ایک مذہب کیلئے صرف عقلی طور پر اپنی عمدگی دکھلانا کافی نہیں ہے ایسا ہی ایک ظاہری راستباز کیلئے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کیلئے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اُس کی راستبازی پر گواہ ہو کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام فسق و فجورسے پاک ہے مگر ایسے دعوے پر