کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایکؔ امتیاز دکھلانا ہے۔ اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اُس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے ۔ سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اوریقینی دلالت کریں اور وہ مذہب اپنے اندر ایسی زبردست طاقت رکھتا ہو جو اپنے پیرو کا خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے ہاتھ ملادے۔ اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ صرف مصنوعات پر نظر کرکے صانع کی فقط ضرورت ہی محسوس کرنا اور اُس کی واقعی ہستی پر اطلاع نہ پانا یہ کامل خدا شناسی کیلئے کافی نہیں ہے اور اسی حد تک ٹھہرنے والے کوئی سچا تعلق خدائے تعالیٰ سے حاصل نہیں کرسکتے اور نہ اپنے نفس کو جذبات نفسانیہ سے پاک کرسکتے ہیں۔ اس سے اگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ اس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہیے نہ یہ کہ درحقیقت وہ صانع ہے بھی۔ اور ظاہر ہے کہ صرف ضرورت کو محسوس کرنا ایک قیاس ہے جو رؤیت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا اورنہ رؤیت کے پاک نتائج اس سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ پس جو مذہب انسان کی خدا شناسی کو صرف ہونا چاہئے کے ناقص مرحلہ تک چھوڑتا ہے وہ اس کی عملی حالت کا چارہ گر نہیں ہے۔ پس درحقیقت ایسا مذہب ایک مردہ مذہب ہے جس سے کسی پاک تبدیلی کی توقع رکھنا ایک طمعِ خام ہے۔ ظاہر ہے کہ محض عقلی دلائل مذہب کی سچائی کے لئے کامل شہادت نہیں ہوسکتے اور یہ ایسی مہر نہیں ہے کہ کوئی جعلساز اس کے بنانے پر قادر نہ ہو بلکہ یہ تو عقل کے چشم ۂ عام کی ایک گداگری متصور ہوسکتی ہے۔ پھر اس بات کاکون فیصلہ کرے کہ عقلی باتیں جو ایک