اب ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ معجزہ کیا چیز ہے اور معجزہ کی کیوں ضرورت ہے۔ سو ہم اس کتاب کے پہلے باب میں معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت بیان کریں گے۔ اور دوسرے باب میں اپنے دعویٰ کے مطابق اُن معجزات کے چند نمونے بیان کردیں گے اور تیسرا باب خاتمہ کا ہوگا۔ جس پر رسالہ ختم ہوگا۔ پہلا باب معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت کے بیان میں معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اُس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگر چہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اُس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے ۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کیلئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے او رنہایت لذیذ اور مصفّٰی اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیززبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ