خدائے تعالیٰ پر اعتراض ہوتا تھا کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کے تمام فرقوں تک جو مختلف فرقوں میں متفرق ہوچکے تھے اپنی دعوت کو ہنوز پہنچانہیں سکے تھے اور اُن کے ہاتھ سے ایک فرقہ کو بھی ابھی ہدایت نہیں ہوئی تھی۔ ایسی صورت میں تبلیغ کے کام کو ناتمام چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کاآسمان پر چڑھ جانا سراسر خلافِ مصلحت او راپنے فرض منصبی سے پہلو تہی کرنا تھا۔ اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کا محض بیہودہ طور پر اُن کو آسمان پر بٹھا دینا ایک بے سود اور لغو کام ہے جو ہرگز خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔
غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہ ایک تہمت ہے کہ گویا وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے۔ سو جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کے زمانہ میں بھی اُن کے دشمنوں نے محض تہمت کے طور پر اُن کو کافر اور کذّاب قرار دیا ویسا ہی اُن کی تعریف میں غلو کرنے والوں نے جو نادان دوست تھے بقول شخصے کہ پیراں نپرند مریداں بپرانند اُن کو مع جسم آسمان پر چڑھا دیا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُن کو خدا بھی بنا دیا۔ اور پھر جب اور بھی زمانہ گذر گیا تو یہ عقیدہ بھی تراشا گیا کہ وہ اسی جسم عنصری کے ساتھ پھر آسمان سے اُتریں گے اور آخری دور انہی کا ہوگا اور وہی خاتم الانبیاء ہوں گے۔ غرض جس قدر جھوٹی کرامتیں اور جھوٹے معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں کسی اور نبی میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی اور عجیب تر یہ کہ باوجود ان تمام فرضی معجزات کے ناکامی اور نامرادی جو مذہب کے پھیلانے میں کسی کو ہوسکتی ہے وہ سب سے اوّل نمبر پر ہیں۔ کسی اور نبی میں اس قدر نامرادی کی نظیر تلاش کرنا لاحاصل ہے مگر یاد رہے کہ اب اُن کے نام پر جو مذہب دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ان کا مذہب نہیں ہے۔ اُن کی تعلیم میں خنزیر خوری اور تین خدا بنانے کا حکمؔ اب تک انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ بلکہ یہ وہی مشرکانہ تعلیم ہے جس کی نبیوں نے مخالفت کی تھی۔ توریت کے دو۲ ہی بڑے بھاری اور ابدی حکم تھے اوّل یہ کہ انسان کو خدا نہ بنانا۔ دوسرے یہ کہ سؤر کو مت کھانا۔ سو دونوں حکم پولوس مقدس کی تعلیم سے توڑ دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔