اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو عجیب طور پر جاہلوں کانشانہ ہوئے ہیں۔ اُن کی زندگی کے زمانہ میں تو یہود بے دین نے اُن کانام کافر اور کذّاب اور مکّار اورمُفتری رکھا اور اُن کے رفع روحانی سے انکار کیا۔ اور پھر جب وہ فوت ہوگئے تو اُن لوگوں نے جن پرانسان پرستی کی سیرت غالب تھی اُن کو خدا بنا دیا اور یہودی تو رفع روحانی سے ہی انکار کرتے تھے۔ اب بمقابل اُن کے رفع جسمانی کااعتقاد ہوا اور یہ بات مشہور کی گئی کہ وہ مع جسم آسمان پر چڑھ گئے ہیں گویا پہلے نبی تو روحانی طور پر بعدموت آسمان پر چڑھتے تھے مگر حضرت عیسیٰ زندہ ہونے کی حالت میں ہی مع جسم مع لباس مع تمام لوازم جسمانی کے آسمان پر جا بیٹھے۔ گویا یہ یہودیوں کی ضد اور انکار کا جو رفع روحانی سے منکر تھے نہایت مبالغہ کے ساتھ ایک جواب تراشا گیا اور یہ جواب سراسر نامعقول تھا کیونکہ یہودیوں کو رفعِ جسمانی سے کچھ غرض نہ تھی۔ اُن کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جو لوگ صلیب پرمرتے ہیں وہ *** اورکافر اور بے ایمان ہوتے ہیں ۔ اُن کا رفع روحانی خداؔ ئے تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر ایک مومن جب مرتا ہے تو اُس کی رُوح کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس کیلئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں لیکن کافر کی رُوح آسمان کی طرف اٹھائی نہیں جاتی۔ اور کافر ملعون ہوتا ہے اُس کی رُوح نیچے کو جاتی ہے۔ اور وہ لوگ بباعث صلیب پانے حضرت عیسیٰ اور نیز بوجہ بعض اختلافات کے اپنے فتووں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر ٹھہرا چکے تھے۔ کیونکہ بزعم اُن کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بذریعہ صلیب قتل ہوگئے تھے۔ اور توریت میں یہ صاف حکم تھا کہ جو شخص بذریعہ صلیب ماراجائے وہ *** ہوتا ہے پس ان وجوہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ کو کافر ٹھہرایا تھا اوراُن کے رفع روحانی سے منکر ہوگئے تھے۔ پس یہودیوں کے نزدیک یہ منصوبہ ہنسی کے قابل تھا کہ گویا حضرت مسیح مع جسم آسمان پر چلے گئے۔ او ردرحقیقت یہ افترا ان لوگوں نے کیا تھا جو توریت کے علم سے ناواقف تھے اور خود فی نفسہٖ یہ خیال نہایت درجہ پر لغو تھا جس سے