اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی معنے آیت 333۱کے کئے گئے ۔ یعنی سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ پس کیا حضرؔ ت عیسیٰ رسول نہیں تھے جو فوت سے باہر رہ گئے۔ پھر باوجود اس اجماع کے فیج اعوج کے زمانہ کی تقلید کرنا دیانت سے بعید ہے۔ امام مالک کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں۔ پس جبکہ سلف الائمہ کا یہ مذہب ہے تو دوسروں کا بھی یہی مذہب ہوگا۔ اور جن بزرگوں نے اس حقیقت کے سمجھنے میں خطا کی وہ خطا خدا تعالیٰ کے نزدیک درگذر کے لائق ہے۔ اِس دین میں بہت سے اسرار ایسے تھے کہ درمیانی زمانہ میں پوشیدہ ہوگئے تھے مگر مسیح موعود کے وقت میں ان غلطیوں کا کھل جانا ضروری تھا کیونکہ وہ حَکَم ہوکر آیا۔اگر درمیانی زمانہ میں یہ غلطیاں نہ پڑتیں تو پھر مسیح موعود کا آنا فضول اور انتظار کرنا بھی فضول تھا، کیونکہ مسیح موعود مجدد ہے اور مجدد غلطیوں کی اصلاح کے لئے ہی آیا کرتے ہیں۔ وہ جس کا نام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم رکھا ہے وہ کس بات کا حَکَم ہے اگر کوئی اصلاح اس کے ہاتھ سے نہ ہو۔ یہی سچ ہے مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں۔
اب پھر ہم اپنے پہلے مضمون کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ معجزات اور کرامات جو عوام الناس نے حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کئے ہیں وہ سنت اللہ سے سراسر برخلاف ہیں۔ اور جیسے ایک فریق نے سرے سے انکار معجزات کا کرکے اپنے تئیں تفریط کی حد تک پہنچا دیا ہے ایسا ہی اُن کے مقابل پر دوسرے فریق نے معجزات کے بارے میں سخت غلو کرکے اپنی بات کو افراط کی حد تک پہنچا دیا ہے اور درمیانی راہ کو دونوں فریق نے ترک کر دیا ہے ظاہر ہے کہ اگر معجزات نہ ہوں تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر کوئی قطعی اور یقینی علامت باقی نہیں رہتی اور اگر معجزات اس رنگ کے ہوں جس کا ابھی بیان کیا گیا ہے تو پھر ایمان کے ثمرات مفقود ہوجاتے ہیں اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔ اور شرک تک نوبت پہنچتی ہے