اس خیال کا بطلان اس طرح پر ہوتا ہے کہ اوّل تو قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ کومع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا بلکہ قرآن شریف کے لفظ تو یہ ہیں کہ3۔۱؂ یعنی خدا نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ پس سوچوکہ کیا خدا دوسرے آسمان پر مجسم چیزوں کی طرح بیٹھا ہوا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی تمام نبیوں کی تعلیم ہے خدا جسم نہیں ہے کہ تا جسمانی رفع اُس کی طرف ہو۔ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نسبت فرمایا جاتا ہے کہ خدا کی طرف وہ گیا یا خدا کی طرف اس کارفع ہوا تو اُس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ روحانی طور پر اس کا رفع ہوا۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ الخ کہ اے نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف واپس آجا۔ پس کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ مع جسم عنصری آجا۔ ماسوا اس کے اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ اگر اس جگہ رفع رُوحانی کا بیان نہیں ہے اور اس جگہ وہ جھگڑا فیصلہ نہیں کیا گیا جو یہودنے حضرت مسیح کے رفع روحانی کی نسبت انکارکیا تھا اور نعوذ باللہ ملعون قرار دیا تھا تو پھر قرآن شریف کے کس مقام میں یہود کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جس کا جواب دینا بموجب وعدہ الٰہی کے ضروری تھا۔پس اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کے رفع کو رفع جسمانی ٹھہرانا سراسر ہٹ دھرمی اورحماقت ہے بلکہ یہ وہی رفع ہے جو ہر ایک مومن کے لئے وعدۂ الٰہی کے موافق موت کے بعد ہونا ضروری ہے اور کافر کے لئے حکم ہے کہ3۳؂یعنی اُن کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ یعنی اُن کا رفع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے 3۴؂ پس سیدھی بات کو اُلٹا دینا تقویٰ اور طہارت کے برخلاف اور ایک طور سے تحریف کلامِ الٰہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں۔