نہیں ہوا۔ اوربموجب ان کے عقیدہ کے حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں تحت الثریٰ میں گئے اور ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت ہوئی ۔ دونوں حالتیں ایک ہی رنگ کی ہونی چاہیئیں۔ یہ ہماری طرف سے عیسائیوں پر الزام ہے کہ وہ بھی رفع کے بارے میں غلطی میں پھنس گئے۔ وہ اب تک اس بات کے اقراری ہیں کہ صلیب کا نتیجہ توریت کی رُو سے ایک روحانی امر تھا یعنی *** ہونا جس کو دوسرے لفظوں میں عدم رفع کہتے ہیں پس بموجب اُن کے عقیدہ کے عدم رفع رُوحانی طور پر ہی ہوا۔ اس حالت میں رفع بھی روحانی ہونا چاہئے تھا تا تقابل قائم رہے۔ عیسائی صاحبان مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں صرف روحانی طور پر تحت الثریٰ اوردوزخ کی طرف گئے اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر جبکہ یہ حالت ہے تو پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت پڑی اور کیوں جسم کو ساتھ ملایا گیا۔ حالانکہ قدیم سے توریت کے ماننے والے تمام نبی اور تمام یہود کے فقیہ صلیبی *** کے یہی معنے کرتے آئے ہیں کہ روحانی طور پر رفع نہ ہو۔ اور اب بھی یہی کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے اُس کا خداتعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ *** کے معنے عدم رفع ہے ۔ بہرحال جبکہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اعتراض دُور کرناتھا اور یہود اب تک عدم رفع سے مراد رُوحانی معنے لیتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ روحانی طور پر عیسیٰ کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا۔ اور وہ کاذب تھا۔ تو پھر خدا تعالیٰ اصل بات کو چھوڑ کر اور طرف کیوں چلا گیا۔ گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اصل جھگڑا سمجھا ہی نہیں اور ایسے جج ؔ کی طرح فیصلہ کیاجو سراسر روئداد مثل کے برخلاف فیصلہ لکھ مارتا ہے۔ ایسا گمان اگر عمداً خدا تعالیٰ کی نسبت کیا جائے تو پھر کفر میں کیا شک ہے۔ پھر ماسوا اس کے ہم کہتے ہیں کہ اگرمان بھی لیا جائے کہ خدا ئے تعالیٰ نے یہود کے اصل جھگڑے کی اس جگہ پروانہ رکھ کر ایک نئی بات بیان کردی ہے جس کا بیان کرنا محض ایک فضول اور غیر ضروری امر تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا تو پھر