بڑی آسانی سے ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہود کے عقیدہ کے رُو سے جو شخص صلیب کے ذریعہ سے قتل کیاجائے وہ ملعون ہوتا ہے اور اُس کا رفع رُوحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ شیطان کی طرف جاتا ہے۔ اب خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ کا رفع روحانی خدائے تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہ ہوا۔ سو خدا نے اوّل یہود کے اِس وہم کو مٹایا کہ حضرت عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل ہوچکے ہیں اور فرمایا کہ یہود کا صرف یہ ایک شبہ تھا جو خدا نے اُن کے دلوں میں ڈال دیا۔ عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل نہیں ہوا تا اس کو ملعون قرار دیا جائے بلکہ اُس کا رفع روحانی ہوا جیسے کہ اور مومنوں کا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کو اس فضول بحث اور فیصلہ کی ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسیٰ بجسم عنصری آسمان پر گیا یا نہ گیا۔کیونکہ یہود کا یہ متنازع فیہ امر نہ تھا اور یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو شخص مصلوب ہو جائے وہ مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا کیوؔ نکہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ جو شخص مصلوب نہ ہو وہ مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے اور نہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ بے ایمان اور *** آدمی مع جسم آسمان پر نہیں جاتا مگرمومن مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے کیونکہ موسٰی ؑ جو یہود کے نزدیک سب سے بڑا نبی تھا اُس کی نسبت بھی یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا ۔ پس تمام جھگڑا تورفع روحانی کا تھا۔ یہود کی طرف سے اپنے عقیدہ کے موافق یہ بحث تھی کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ ملعون ہیں کیونکہ اُن کا رفع روحانی نہیں ہوا وجہ یہ کہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مارے گئے پس اسی غلطی کو خدا تعالیٰ نے دُور کرنا تھا سو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ عیسیٰ ملعون نہیں ہے بلکہ اُس کا رفع رُوحانی اورمومنوں کی طرح ہوگیا۔ یاد رہے کہ ملعون کا لفظ مرفوع کے مقابل پر آتا ہے جبکہ مرفوع کے معنے رُوحانی طور پر مرفوع ہو۔ پس جو لوگ حضرت عیسیٰ کو بوجہ مصلوب ہونے کے ملعون ٹھہراتے ہیں اُن کے نزدیک ملعون کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ ایسے شخص کا رفع رُوحانی نہیں ہوتا۔ عیسائیوں نے بھی اپنی غلطی سے تین دن کیلئے حضرت عیسیٰ کو ملعون مان لیا یعنی تین دن تک اُس کا رفع روحانی