اور پھر جب مجھے وفات دی گئی تب سے میں اُن کے حالات سے محض بے خبر ہوں مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ عذر اُن کا اس حالت میں کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں کسی وقت آئے ہوتے اور عیسائیوں کی ضلالت پر اؔ طلاع پاتے۔ محض دروغگوئی ٹھہرتا ہے اور اس کا جواب تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ہونا چاہیے کہ اے گستاخ شخص میرے روبرو اور میری عدالت میں کیوں جھوٹ بولتا ہے اور کیوں محض دروغ کے طور پر کہتاہے کہ مجھے اُن کے بگڑنے کی کچھ بھی خبر نہیں حالانکہ تجھے معلوم ہے کہ میں نے قیامت سے پہلے دوبارہ تجھے دنیا میں بھیجا تھا اور تو نے عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں اور اُن کی صلیب توڑی تھی اور اُن کے خنزیر قتل کئے تھے اور پھر میرے روبرو اتنا جھوٹ کہ گویا تجھے کچھ بھی خبر نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے عقیدے میں کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے کس قدر ان کی ہتک ہے اور نعوذ باللہ اس سے وہ دروغگو ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر کہو کہ پھر ان حدیثوں کے کیامعنے کریں جن میں لکھا ہے کہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا اس کا یہ جواب ہے کہ اُسی طرح معنے کرلو جس طرح حضرت عیسیٰ نے الیاس کے دوبارہ آنے کی نسبت معنے کئے تھے۔ اور نیز حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ وہ عیسیٰ اسی امت میں سے ہوگا کوئی اور شخص نہیں ہوگا۔ اور یہ نہیں لکھا کہ دوبارہ آئے گا۔ بلکہ یہ لکھا ہے کہ ’’نازل ہوگا‘‘ اگر دوبارہ آنا مقصود ہوتا تو اُس جگہ رجوع کا لفظ چاہئے تھا نہ نزول کا۔ اور اگر فرض محال کے طورپر کوئی حدیث قرآن شریف سے مخالف ہوتی تو وہ رد کرنے کے لائق تھی نہ یہ کہ کسی حدیث سے قرآن شریف کو رد کیا جائے ۔ اور اس جگہ یاد رہے کہ قرآن شریف یہود ونصاریٰ کی غلطیوں اور اختلافات کو دُور کرنے کیلئے آیا ہے۔ اور قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے کرنے کے وقت جو یہود و نصاریٰ کے متعلق ہو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اُن میں کیا جھگڑا تھا جس کو قرآن شریف فیصلہ کرنا چاہتا ہے اب اس اصول کو مدنظررکھ کر اس آیت کے معنے کہ