پیدا ہوجاتے ہیں۔ کوئی اُن کو خدا نہیں ٹھہراتا۔ کوئی اُن کی پرستش نہیں کرتا۔ کوئی اُن کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ پھر خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ کہنا کہ وہ اب تک زندہ ہے اور دوسرے نبی سب فوت ہوچکے یہ قرآن شریف کی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں بتصریح اُن کی موت بیان فرماتا ہے پھر وہ زندہ کیونکر ہوئے اور قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ آیت33۱سے یہ دونوں مطلب ثابت ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اس تمام آیت کے اوّل آخر کی آیتوں کے ساتھ یہ معنے ہیں کہ خدا قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہے گا کہ کیا تو نے ہی لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود ٹھہرانا۔ تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا تو میں اُن کے حالات سے مطلع تھا اور گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کے حالات سے واقف تھا۔ یعنی بعد وفات مجھے اُن کے حالات کی کچھ بھی خبر نہیں۔
اب اس آیت سے صریح طور پر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں(۱) اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس آیت میں اقرار کرتے ہیں کہ جب تک میں اُن میں تھا میں ان کا محافظ تھا۔ اور وہ میرے روبرو بگڑے نہیں بلکہ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں۔ پس اب اگر فرض کیاجائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ ہیں تو ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا کہ اب تک عیسائی بھی بگڑے نہیں کیونکہ اس آیت میں عیسائیوں کا بگڑنا آیت33کا ایک نتیجہ ٹھہرایا گیاہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر موقوف رکھا گیا ہے۔ لیکن جبکہ ظاہر ہے کہ عیسائی بگڑ چکے ہیں توساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں ورنہ تکذیب آیت قرآنی لازم آتی ہے۔(۲) دوسرے یہ کہ آیت میں صریح طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے کی نسبت اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے اورکہیں گے کہ مجھے تو اُس وقت تک ان کے حالات کی نسبت علم تھا جبکہ میں اُن میں تھا۔