اب جس حالت میں ایسی مشہور شدہ کرامات کو قبول نہیں کیا گیا جن کے قبول کرنے میں چنداں حرج نہ تھا تو پھر کیوں ایسے شخص کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو نہ صرف قرآن شریف کی منشاء کے برخلاف ہیں بلکہ عیسیٰ پرستی کے شرک کو اُس سے مدد ملتی ہے جس نے چالیس کروڑ انسانوں کو خدائے تعالیٰ کی توحید سے محروم کردیا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کو اور نبیوں پر کیا زیادتی اور کیا خصوصیت ہے۔ پھر اُس کو ایک خصوصیت دینا جو شرک کی جڑ ہے کس قدر کھلی کھلی ضلالت ہے جس سے ایک بڑی قوم تباہ ہوچکی ہے ہائے افسوس کہ انہوں نے محض مصنوعی کفارہ پر بھروسہ کرکے اپنے تئیں ہلاک کیا اور یہ خیال نہ کیا کہ نفس کے آتشی دریا سے وہی پار ہوگا جو اپنی کشتی اپنے ہاتھ سے بنائے گا اور وہی مزدوری لے گا جو اپنا کام آپ کرے گا اور وہی نقصان سے بچے گا جو اپنا بوجھ آپ اُٹھائے گا یہ کیسی جہالت ہے جو ایک انسان بیدست و پاہوکر دوسرے انسان پر اپنی کامیابی کیلئے بھروسہ کرے اور کسی کی جسمانی قوت کو اپنی روحانی زندگی کیلئے مفید سمجھے۔ خدا کا قانون ہے کہ اُس نے کسی انسان کو کسی امر میں خصوصیت نہیں دی اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں ایک ایسی بات ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایسے انسان کو واقعی طور پر معبود ٹھہرانے کیلئے بنیاد پڑ جاتی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بعض عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں توفی الفور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی اس آیت میں جواب دیا۔333۔۱؂ یعنی ’’عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اُس کو کہا کہ’’ ہو جا۔ سو وہ ہوگیا‘‘ ایسا ہی عیسیٰ بن مریم، مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہوگیا۔ پس اتنی بات میں کون سی خدائی اور کون سی خصوصیت اسؔ میں پیدا ہوگئی۔ موسم برسات میں ہزارہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خودبخود زمین سے