معجزہ کے نفس امر میں شک نہیں مگر وہ اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ آگے ہم تفصیل سے بیان کریں گے۔
اس جگہ مسلمانوں پرنہایت افسوس ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتے ہیں جو قرآن شریف کی بیان کردہ سنت کے مخالف ہیں۔ اور وہ راہ چلتے ہیں جس کا آگے کوچہ ہی بند ہے۔ اور نہ صرف اسی قدر کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت عیسائیوں کی پرانی کہانیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ آئندہ کیلئے تمام دنیا سے الگ کسی وقت آسمان سے اُن کا نازل ہونا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں (حالانکہ عمردنیا کے رُو سے جو سات ہزار ہے یہی آخری زمانہ ہے) حضرت عیسیٰ آسمان سے فرشتوں کے ساتھ نازل ہوں گے اور ایک بڑا تماشا ہوگا اور لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہوگا اور آسمان کی طرف نظر ہوگی۔اور لوگ دور سے دیکھ کرکہیں گے کہ وہ آئے وہ آئے۔ اور دمشق میں ایک سفیدمینار کے قریب اُتریں گے۔ مگر تعجب کہ وہ غریب اور عاجز انسان جو اپنی نبوت ثابت کرنے کیلئے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ لاسکا یہاں تک کہ صلیب پر لٹکایا گیا۔ اُس کی نسبت ایسے ایسے کرشمے بیان کئے جاتے ہیں۔اگر یہ باتیں قبول کے لائق ہیں تو پھر کیوں حضرت سید عبد القادر جیلانی کی یہ کرامت جو لوگوں میں بہت مشہور ہو رہی ہے قبول نہیں کی جاتی کہ ایک کشتی جو مع برات دریامیں ڈوب گئی تھی انہوں نے بارہ برس کے بعد نکالی تھی اور سب لوگ زندہ تھے اور نقارے اور باجے اُن کے ساتھ بج رہے تھے۔ ایساؔ ہی یہ دوسری کرامت کہ ایک مرتبہ فرشتہ ملک الموت ان کے کسی مرید کی رُوح بغیر اجازت نکال کر لے گیا تھا انہوں نے اڑ کر آسمان پر اس کو جا پکڑا اور اُس کی ٹانگ پر لاٹھی ماری اور ہڈی توڑ دی ۔ اور اُس روز کی جس قدر روحیں نکالی گئی تھیں سب چھوڑ دیں اور وہ دوبارہ زندہ ہوگئیں۔ فرشتہ روتا ہوا خدا تعالیٰ کے پاس گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبد القادر محبوبیّت کے مقام میں ہے اس کے کام کی نسبت کوئی دست اندازی نہیں ہوگی اگر وہ تمام گذشتہ مُردے زندہ کر دیتا تب بھی اُس کا اختیار تھا۔