وہ تمام مردے بہرے اور گونگے تو نہیں ہوں گے۔ اور جن لوگوں کو ایسے معجزات دکھلائے جاتے تھے کوئی اُن مُردوں میں سے اُن کا بھائی ہوگا اور کوئی باپ اور کوئی بیٹا اور کوئی ماں اورکوئی دادی اور کوئی دادا اور کوئی دوسرا قریبی اور عزیز رشتہ دار۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کافروں کومومن بنانے کی ایک وسیع راہ کھل گئی تھی۔ کئی مُردے یہودیوں کے رشتہ دار اُن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کئی شہروں میں اُن کے لیکچر دلائے ہوں گے۔ایسے لیکچر نہایت پُر بہار اور شوق انگیز ہوتے ہوں گے۔ جب ایک مردہ کھڑا ہوکر حاضرین کو سناتا ہوگا کہ اے حاضرین! آپ لوگوں میں بہت ایسے اس وقت موجود ہیں جو مجھے شناخت کرتے ہیں جنہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے دفن کیا تھا۔ اب میں خدا کے منہ سے سن کر آیاہوں کہ عیسیٰ مسیح سچا ہے اور اُسی نے مجھے زندہ کیا تو عجب لطف ہوتاہوگا اور ظاہر ہے کہ ایسے مردوں کے لیکچروں سے یہودی قوم کے لوگوں کے دلوں پر بڑے بڑے اثر ہوتے ہوں گے۔ اورہزاروں لاکھوں یہودی ایمان لاتے ہوں گے۔ پر قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودؔ یوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ردکر دیا تھا۔ اور اصلاح مخلوق میں تمام نبیوں سے اُن کا گرا ہوا نمبر تھا اور تقریباً تمام یہودی اُن کو ایک مکّار اور کاذب خیال کرتے تھے۔ اب عقلمند سوچے کہ کیا ایسے بزرگ اور فوق العادت معجزات کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے تھا جبکہ ہزاروں مُردوں نے زندہ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی گواہی بھی دیدی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بہشت کو دیکھ آئے ہیں اُس میں صرف عیسائی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں اور دوزخ کو دیکھا تو اس میں یہودی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے منکر ہیں تو ان سب باتوں کے بعد کس کی مجال تھی کہ حضرت عیسیٰ کی سچائی میں ذرہ بھی شک کرتا۔اور اگر کوئی شک کرتا تو ان کے باپ دادا جو زندہ ہوکرآئے تھے اُن کو جان سے مارتے کہ اے ناپاک لوگو! ہماری گواہی اور پھر بھی شک۔ پس یقیناًسمجھو کہ ایسے معجزات محض بناوٹ ہے۔