کتاب میں جو اب تک موجود ہے میری نسبت یہ شائع کیا تھا کہ مجھے پرمیشر کے الہام سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص تین۳ برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہوجائے گا۔ اور اس کے مقابل پر میں نے خدائے تعالیٰ سے واقعی اطلاع پاکر یہ اشتہار دیا تھا کہ لیکھرام چھ۶ برس کے اندر مارا جائے گا اور اُس کے مارے جانے کا دن اور تاریخ مقرر کردی تھی۔چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ یہ امتیازی نشان ہے جو مذہب اسلام کی سچائی پر گواہی دیتا ہے لیکن افسوس کہ آریہ صاحبوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔
غرض سچا مذہب صرف عقل کا دریوزہ گر نہیں ہوتا کہ یہ اس کیلئے عار ہے۔ اور اس سے شبہ گذرتا ہے کہ عقلمندوں کی باتیں چُراکر لکھی گئی ہیں کیونکہ دنیا میں عقلمند تھوڑے نہیں گذرے ہیں۔ بلکہ وہ ؔ علاوہ عقلی دلائل کے مذہب کی ذاتی خاصیت بھی پیش کرتا ہے جو آسمانی نشان ہیں اور یہی سچے مذہب کی حقیقی علامت ہے ہاں یہ سچ ہے کہ جو عوام الناس اور جاہل لوگ بعض مذاہب یا اشخاص کی نسبت خود تراشیدہ کرامات اور معجزات شائع کرتے ہیں جو نہایت مبالغہ آمیز باتیں ہوتی ہیں وہ کسی مذہب کا فخر نہیں ہیں بلکہ عار اور ننگ کی جگہ ہیں۔ اور ان فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسیٰ علیہ السلام متہم کئے گئے ہیں اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی یہاں تک کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہزاروں بلکہ لاکھوں مُردے زندہ کر ڈالے تھے۔یہاں تک کہ انجیلوں میں بھی یہ مبالغہ آمیز باتیں لکھی ہیں کہ ایک مرتبہ تمام گورستان جو ہزاروں برسوں کا چلا آتا تھا سب کا سب زندہ ہوگیا تھا اور تمام مُردے زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے۔
اب عقلمند قیاس کرسکتا ہے کہ باوجودیکہ کروڑہا انسان زندہ ہوکر شہر میں آگئے اور اپنے بیٹوں پوتوں کو آکر تمام قصے سنائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی تصدیق کی مگر پھر بھی یہودی ایمان نہ لائے اور اس درجہ کی سنگ دلی کو کون باور کرے گا۔ اوردرحقیقت اگر ہزاروں مُردے زندہ کرنا حضرت عیسیٰ کا پیشہ تھا تو جیسا کہ عقل کے رو سے سمجھا جاتا ہے