ہاتھ میں ہو۔ اور صرف اسی پر کفایت نہیں بلکہ تب مانیں گے کہ ہم اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ یا چاند کا ٹکڑا یا سورج کا ٹکڑا اپنے ساتھ لائے جو زمین کو روشن کرسکے۔ یا فرشتے اس کے ساتھ آسمان سے اُتریں جو فرشتوں کی طرح خارق عادت کام کرکے دکھلائیں۔ یادس بیس مردے اُس کی دُعا سے زندہ ہو جائیں او وہ شناخت کئے جائیں کہ فلاں فلاں شخص کے باپ دادا ہیں جو فلاں تاریخ مرگئے تھے اور صرف اسی قدر کافی نہیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عام شہروں میں مجلسیں منعقد کرکے لیکچر دیں۔ اور بلند آواز سے کہہ دیں کہ درحقیقت ہم مُردے ہیں جو دوبارہ زندہ ہوکر دنیا میں آئے ہیں اورؔ ہم اسلئے آئے ہیں کہ تا گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے یا فلاں شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں وہ سچ کہتا ہے اور ہم خدا ئے تعالیٰ کے منہ سے سن کرآئے ہیں کہ وہ سچا ہے۔ یہ وہ خودتراشیدہ معجزات ہیں جو ا کثر جاہل لوگ جو ایمان کی حقیقت سے بکلّی بے خبر ہیں مانگا کرتے ہیں۔ یا ایسے ہی اور بیہودہ خوارق جو خدا ئے تعالیٰ کی اصل منشاء سے بہت دور ہیں طلب کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مدت ہوئی کہ آریوں میں سے ایک شخص لیکھرام نام نے بھی قادیان میں آکر ایسے ہی نشان مجھ سے طلب کئے تھے اور ہر چند سمجھایا گیا کہ اصل غرض نشانوں کی صرف حق او ر باطل میں امتیاز ہے اور صرف امتیاز دکھلانے کی حد تک وہ ظاہر ہوتے ہیں مگر تعصب نے اس قدر اُس کو نافہم اور غبی کررکھا تھا کہ وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہی نہیں تھا ۔ آخر وہ نشانوں سے منکر ہونے کی وجہ سے بمقام لاہور خدا کے نشان کا ہی نشانہ ہوگیا۔ اور جیسا کہ اُس کے حق میں اُس کی مفتریانہ پیشگوئی کے مقابل پر یہ پیشگوئی میں نے کی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر مارا جائے گا ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس قضاو قدر کو جس کی نسبت پانچ برس پہلے لاکھوں انسانوں میں اعلان کیا گیا تھا کوئی روک نہ سکا۔ اور اسلام اور آریہ مذہب میں ایک امتیازی نشان ظاہر ہوگیا۔ کیونکہ میری طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ مذہب اسلام سچا ہے۔ اور لیکھرام کی طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ آریہ مذہب سچا ہے اور لیکھرام نے اپنے دعویٰ کی تائید میں اپنی