نشان اس درجہ پر کھلی کھلی چیز نہیں ہے جس کے ماننے کیلئے تمام دنیا بغیر اختلاف اور بغیر عذر اور بغیر چون و چرا کے مجبور ہو جائے۔ اور کسی طبیعت کے انسان کو اُس کے نشان ہونے میں کلام نہ رہے اور کسی غبی سے غبی انسان پر بھی وہ امر مشتبہ نہ رہے۔ غرض نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کیلئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عقلمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیںؔ جو اپنی فراست اور دوربینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ۔۔۔ ایسے امور ہیں جو دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں اور نہ ایک کاذب اُن کے دکھلانے پر قادر ہوسکتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور اُن میں ایک ایسی خصوصیت اورامتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پُرتکلف منصوبے قدرت نہیں پاسکتے اور وہ اپنے لطیف فہم اور نُورِ فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے اندر ایک نُور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالاکی کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کیلئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اُس روشنی کو دیکھ سکے اِسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کیلئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورِ فراست کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراستِ صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے مگر بدبخت انسان جس کو یہ نورِ فراست عطا نہیں ہوا وہ ایسے معجزات سے جو صرف امتیازی حد تک ہیں تسلّی نہیں پاتا اور بار بار یہی سوال کرتا ہے کہ بجز ایسے معجزہ کے میں کسی معجزہ کو قبول نہیں کرسکتا کہ جو نمونہ قیامت ہو جائے ۔ مثلاً کوئی شخص میرے روبرو آسمان پر چڑھ جائے اور پھر روبرو ہی آسمان سے اُترے اور اپنے ساتھ کوئی ایسی کتاب لائے جو اُترنے کے وقت اس کے