ظاہر ہوچکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرّہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔
یاد ؔ رہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کیلئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقلمندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجائے اور اُسی حد تک معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو مابہ الامتیاز قائم کرنے کیلئے کافی ہو۔ اور یہ اندازہ ہر ایک زمانہ کی حاجت کے مناسبِ حال ہوتا ہے اور نیز نوعیّتِ معجزہ بھی حسبِ حال زمانہ ہی ہوتی ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ ہر ایک متعصب اور جاہل اور بدطبع گو کیسا ہی مصلحتِ الہٰیّہ کے برخلاف اور قدرِ ضرورت سے بڑھ کر کوئی معجزہ مانگے تو وہ بہرحال دکھلانا ہی پڑے۔ یہ طریق جیسا کہ حکمت الہٰیّہ کے برخلاف ہے ایسا ہی انسان کی ایمانی حالت کو بھی مضر ہے کیونکہ اگر معجزات کا حلقہ ایسا وسیع کردیا جائے کہ جو کچھ قیامت کے وقت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ سب دنیا میں ہی بذریعہ معجزہ ظاہر ہوسکے تو پھر قیامت اور دنیا میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ حالانکہ اسی فرق کی وجہ سے جن اعمال صالحہ اور عقائد صحیحہ کا جو دنیا میں اختیار کئے جائیں ثواب ملتا ہے وہی عقائد اور اعمال اگر قیامت کو اختیار کئے جائیں توایک رَتی بھی ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ تمام نبیوں کی کتابوں اور قرآن شریف میں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن کسی بات کا قبول کرنا یا کوئی عمل کرنا نفع نہیں دے گا اور اُس وقت ایمان لانا محض بیکار ہوگا۔ کیونکہ ایمان اُسی حد تک ایمان کہلاتا ہے جبکہ کسی مخفی بات کو ماننا پڑے لیکن جب کہ پردہ ہی کھل گیا اور رُوحانی عالم کا دن چڑھ گیا اور ایسے امور قطعی طور پر ظاہر ہوگئے کہ خدا پر اور روزجزا پر شک کرنے کی کوئی بھی وجہ نہ رہی تو پھر کسی بات کواُس وقت ماننا جس کو دوسرے لفظوں میں ایمان کہتے ہیں محض تحصیلِ حاصل ہوگا۔ غرض