کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے۔
اوّل۔ یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رُو سے ایسا جامع اور اکمل اورؔ اتم اور نقص سے دُور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کرسکے۔ اورکوئی نقص اور کمی اُس میں دکھلائی نہ دے۔ اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اُس کے برابر نہ ہو۔ جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ 3333 ۱یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر پوراکیا۔ اورمیں نے پسند کیاکہ اسلام تمہارامذہب ہو۔ یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ۔ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطاکی ہے اورقرآن شریف کاہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔ پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اُسی کاحق تھا اس کے سواکسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپناکلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رُو سے توریت کا سننا کافی ہوتا توکچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اورنبی آتا۔ اور مواخذہ الٰہیہ سے مخلصی پانا اُس کلام کے سننے پرموقوف ہوتاجو اُس پر نازل ہوتا۔ ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور