کہ قضاء وقدر درحقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔مجھےؔ اس بات پر افسوس ہے بلکہ اس بات کے تصور سے دل دردمند ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس کتاب کے خریدار تھے اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی دنیا سے گذر گئے مگر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں انسان تقدیر الٰہی کے ماتحت ہے اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدوجہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کرسکتا۔ لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آجاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے نہایت آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔
اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے تمام کاموں میں حکمت اورمصلحت ہوتی ہے تواس عظیم الشان دینی خدمت کی کتاب میں جس میں اسلام کے تمام مخالفوں کا رد مقصود تھا کیا حکمت تھی کہ وہ کتاب تخمیناًتیئس۲۳برس تک مکمل ہونے سے معرض التوا میں رہی۔ اس کا جواب خدا ہی بہتر جانتا ہے کوئی انسان اس کے تمام بھیدوں پر محیط نہیں ہوسکتامگر جہاں تک میرا خیال ہے وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصے کو جو شائع ہوچکے تھے وہ ایسے امور پرمشتمل تھے کہ جب تک وہ امور ظہور میں نہ آجاتے تب تک براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّہ کے دلائل مخفی اور مستور رہتے اور ضرور تھا کہ براہین احمدیہ کا لکھنا اس وقت تک ملتوی رہے جب تک کہ امتدادِ زمانہ سے وہ سربستہ امور کھل جائیں اور جو دلائل اُن حصوں میں درج ہیں وہ ظاہر ہوجائیں کیونکہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصوں میں جو خدا کاکلام یعنی اس کا الہام جابجا مستور ہے جو اس عاجز پر ہوا وہ اس بات کا محتاج تھا جو اس کی تشریح کی جائے اور نیز اس بات کا محتاج تھا کہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں اُن کی سچائی لوگوں پر ظاہر ہو جائے ۔ پس اس لئے خدائے حکیم و علیم نے اس وقت تک براہین احمدیہ کا چھپنا ملتوی رکھا کہ جب تک وہ تمام پیشگوئیاں ظہور میں آگئیں اور یاد رہے کہ