یہ عادتِ الٰہی ہے کہ راستبازوں کی معجزانہ زندگی ہوتی ہے۔ او ر خدا کی نصرت اُن کے شامل حال رہتی ہے اور ایسے طور سے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ سراسر معجزہ ہوتا ہے۔
یاد رکھناچاہئے کہ ایک راستباز کی معجزانہ زندگی زمین اورآسمان سے زیادہ تر خدائے تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کسی نے نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ صرف اس عالم کی پُرحکمت صنعت کو دیکھ کر اور اس کی ترکیب کو ابلغ اور محکم پاکر عقل سلیم اس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ ان بے مثل مصنوعات کا کوئی صانع ہوناچاہیے۔ مگر عقل اپنی معرفت میں اس حد تک نہیں پہنچتی کہ فی الواقع وہ صانع موجود بھی ہے کیونکہ اُس نے اس صانع کو بناتے نہیں دیکھا اور عقلی خدا شناسی کا تمام مدار صرف ضرورتِ صانع پر رکھا گیا ہے نہ یہ کہ اس کا ہونا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن راستباز کی معجزانہ زندگی واقعی طور پر اور مشاہدہ کے پیرایہ میں خدائے تعالیٰ کی ہستی کو دکھلاتی ہے کیونکہ راستباز اپنی سب ابتدائی حالت میں ایک ذرّہ بے مقدار کی طرح ہوتا ہے یا ایک رائی کے بیج کی طرح جس کو ایک کسان نے بویا اور نہایت ذلیل حالت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ تب وحی کے ذریعہ سے خدا دنیا کو اطلاع دیتا ہے کہ دیکھو میں اس کو بناؤں گا۔ میں ستاروں کی طرح اُس میں چمک ڈالوں گا اورآسمان کی طرح اُس کو بلند کروں گا۔ اور ایک ذرّہ کو ایک پہاڑ کی طرح کر دکھاؤں گا۔ پھر بعد اس کے باوجود اس بات کے کہ دنیا کے تمام شریر چاہتے ہیں کہ وہ ارادۂ الٰہی معرضِ التواء میں رہے۔ اور ناخنوں تک زور لگاتے ہیں کہ وہ امر ہونے نہ پائے مگر وہ رُک نہیں سکتا جب تک پورا نہ ہو اور خدا کا ہاتھ سب روکوں کو دور کرکے اس کو پورا کرتا ہے وہ ایک گمنام کو اپنی پیشگوئی کے مطابق ایک عظیم الشان جماعت بنا دیتا ہے۔ وہ تمام مستعد لوگوں کو اس کی طرف کھینچتا ہے۔ وہ اُس گمنام کو ایسی شہرت دیتاؔ ہے کہ کبھی اُس کے باپ دادوں کو نصیب نہ ہوئی۔ وہ ہر میدان میں اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور ہر ایک جنگ میں اس کو فتح دیتا ہے اور ایک دنیا کو اُس کا غلام کرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کو اس کی طرف