مباحثاتِ مذہبیّہ میں بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں۔ اور سخت گوئی اور بدزبانی اور منہ کی تیزی میں ایک طور سے پادری صاحبوں سے بھی کچھ آگے قدم ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ کی معرفت اُن کو ہرگز نصیب نہیں کیونکہ اوّل تو خدا تعالیٰ عقلی طور پر اپنی خالقیت سے شناخت کیا جاتا ہے مگر اُن کے نزدیک خدائے تعالیٰ خالق نہیں ہے۔ پس مصنوعات کے لحاظ سے اُن کے پاس اُس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں اور دوسرا طریق شناخت خدائے تعالیٰ کا آسمانی نشان ہیں مگر وہ اُن سے منکر اور قطعاً اس راہ سے بے نصیب ہیں اور صرف پرمیشر کے نام کے لفظ ہاتھ میں ہیں اور اُس کی ہستی سے بے خبر۔ افسوس یہ لوگ نہیں جانتے کہ انسان ہزار اپنی زبان سے بک بک کرے اس سے کیا فائدہ جب تک اس کو اپنے خدا کی ایسی شناخت حاصل نہ ہو جائے جس سے اُس کی سفلی زندگی پر موت آجائے۔ اور اُس کا دل خدائے تعالیٰ کی محبت سے بھر جائے اور گناہ سے اس کو نفرت ہو جائے۔ یوں تو ہر ایک شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں ایسا ہی ہوں لیکن سچے پرستاروں کے یہ نشان ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی سچی محبت کی وجہ سے اُن میں ایک برکت پیدا ہوجاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کی قولی اور فعلی تجلی اُن کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ خدائے تعالیٰ کے ہم کلام ہو جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے معجزانہ افعال اُن میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ بہت سے الہامات ایسے اُن پر ظاہر کرتا ہے جن میں آئندہ نصرتوں کے وعدے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے وقت میں وہ نصرتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور اس طرح پر وہ اپنے خدا کو پہچان لیتے ہیں اور خاص نشانوں کے ساتھ غیر سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ اُن کو ایک قوتِ جذب دی جاتی ہے جس سے لوگ اُن کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ اور عشقِ الٰہی اُن کے منہ پر برستا ہے۔ اور اگر یہ مابہؔ الامتیاز نہ ہو تو پھر ہر ایک بدمعاش جو پوشیدہ طور پر زانی فاسق فاجر شراب خور اور پلید طبع ہو نیک کہلا سکتا ہے پھر حقیقی نیک اور اس مصنوعی نیک میں فرق کیا ہوگا۔ پس فرق کرنے کیلئے ہمیشہ سے