ہاں یہ دروازہ بہت تنگ ہے اور اس کے اندر داخل ہونے والے بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اس دروازہ کی دہلیز موت ہے اور خدا کو دیکھ کر اُس کی راہ میں اپنی ساری قوت اور سارے وجود سے کھڑے ہو جانا اُس کی چوکھٹ ہے۔ پس بہت ہی تھوڑے ہیں جو اس دروازے میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں عیسائی صاحبوں کو تو حضرت مسیح کے خون کے خیال نے اس دروازہ سے دُور ڈال دیا اور آریہ صاحبوں کو تناسخ کے خیال اور توبہ نہ قبول ہونے کے عقیدہ نے اس دروازہ سے محروم کردیا کیونکہ اُن کے نزدیک گناہ کے بعد بجز طرح طرح کے جونوں میں پڑنے کے اسی زندگی میں اور کوئی طریق پاک ہونے کا نہیں۔ اور تو بہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف ایک موت کی حالت بناکر پر صدق دل سے رجوع کرنا اور موت کی سی حالت بناکر اپنی قربانی آپ ادا کرنا اُن کے نزدیک ایک لغو خیال ہے۔ پس یہ دونوں فریق اُس حقیقی راہ سے محروم ہیں۔
آریہ صاحبوں کے لئے اور بھی مشکلات ہیں کہ اُن کیلئے خدائے تعالیٰ پر یقین کرنے کی کوئی بھی راہ کھلی نہیں۔ نہ معقولی نہ سماوی۔ معقولی اس لئے نہیں کہ اُن کے خیال کے مطابق ارواح مع اپنی تمام طاقتوں کے خود بخود ہیں اور پرکرتی یعنی اجزاء عالم مع اپنے تمام گنوں کے خود بخود ہیں تو پھر پرمیشر کے وجود پر کونسی عقلی دلیل رہی کیونکہ اگر سب کچھ خود بخود ہے تو پھر کیاوجہ کہ ان چیزوں کا جوڑ خود بخود نہیں۔ سو یہ مذہب دہریہ مذہب سے بہت نزدیک ہے۔ اور اگر خدا نے ان لوگوں کو اس غلط راہ سے توبہ نصیب نہ کی تو کسی دن سب دہریہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح سماوی طریق سے بھی خدا تعالیٰ کی شناخت سے بے نصیب ہیں۔ کیونکہ سماوی طرؔ یق سے مراد آسمانی نشان ہیں جو خدائے تعالیٰ کے وجود پر تازہ بتازہ نشان ہوتے ہیں۔ جن کو زندہ خدا پر ایمان لانے والا آدمی مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور یقینی طور پر اُس کا تصرف ہر ایک چیز پر دیکھتا ہے۔ سو یہ لوگ ان نشانوں سے قطعاً منکر ہیں لہٰذا خدا شناسی کے دونوں دروازے ان لوگوں پر بند ہیں۔ ہاں محض تعصّب کے طور پر