ایمان لانا اور اُن کو خدا سمجھنا انسان کے تمام گناہ معاف ہو جانے کا موجب ہے۔ کیا ایسے خیال سے توقع ہوسکتی ہے کہ انسان میں سچی نفرت گناہ سے پیدا کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک ضد اپنی ضد سے دُور ہوتی ہے۔ سردی کو گرمی دُور کرتی ہے اور تاریکی کے ازالہ کا علاج روشنی ہے۔ پھر یہ علاج کس قسم کا ہے کہ زید کے مصلوب ہونے سے بکر گناہ سے پاک ہوجائے۔ بلکہ یہ انسانی غلطیاں ہیں کہ جو غفلت اور دنیا پرستی کے زمانہ میں دلوں میں سما جاتی ہیں۔ اور جن پست خیالات کی وجہ سے دنیا میں بت پرستی نے رواج پایا ہے فی الحقیقت ایسے ہی نفسانی اغراض کے سبب سے یہ مذہب صلیب اور کفارہ کا عیسائیوں میں رواج پاگیا ہے۔
اصل امر یہ ہے کہ انسان کا نفس کچھ ایسا واقع ہے کہ ایسے طریق کو زیادہ پسند کرلیتا ہے جس میں کوئی محنت اور مشقت نہیں۔ مگر سچی پاکیزگی بہت سے دُکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے اور وہ پاک زندگی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک انسان موت کا پیالہ نہ پی لے۔ پس جیسا کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ تنگ اور مشکل راہوں سے پرہیز کرتا ہے اور سہل اور آسان طریق ڈھونڈتا ہے۔ اسیؔ طرح ان لوگوں کو یہ طریق صلیب جو صرف زبان کا اقرار ہے اور رُوح پر کسی مشقت کا اثر نہیں بہت پسند آگیا ہے جس کی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ اور نہیں چاہتے کہ گناہوں سے نفرت کرکے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں۔ درحقیقت صلیبی اعتقاد ایک ایسا عقیدہ ہے جو اُن لوگوں کو خوش کر دیتا ہے جو سچی پاکیزگی حاصل کرنا نہیں چاہتے اور کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہوجائیں لہٰذا وہ باوجود بہت سی آلودگیوں کے خیال کر لیتے ہیں کہ فقط خونِ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ سے پاک ہوگئے۔ مگر یہ پاک ہونا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پھوڑا جو پیپ سے بھرا ہوا ہو اور باہر سے چمکتا ہوا نظر آئے۔ اور اگر غور کرنے والی طبیعتیں ہوں