گریہ وزاری بھی ضروری ہے۔ اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے ہماری دُعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبتِ الٰہی کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اُس میں ایک ایسی قوتِ توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تاہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تووہ آگ کو بجھا دے گا۔
یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اسی طریق سے اُن کے دل پاک و صاف ہوتے رہے ہیں۔ یعنی بغیر اس کے جو زندہ خدا خود اپنی تجلّی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انساؔ ن گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا۔
اورمعقولی طور پر بھی یہی بات ظاہر و ثابت ہے کہ انسان فقط اُسی چیز کی قدر کرتا ہے اور اُسی کا رعب اپنے دل میں جماتا ہے جس کی عظمت اور طاقت بذریعہ معرفت تامّہ کے وہ معلوم کر لیتاہے۔ مثلاً ظاہر ہے کہ انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس کی نسبت اُس کو یقین ہو کہ اس میں سانپ ہے۔ اور ایسی چیز کو ہرگز نہیں کھاتا جس کو یقین کرتا ہے کہ وہ زہر ہے۔ پھر کیا باعث کہ وہ اس طرح خدائے تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور ہزاروں فسق و فجور گستاخی سے کرتا ہے اور گو پیرانہ سالی تک بھی نوبت پہنچ جائے پھر بھی نہیں ڈرتا۔ اس کا یہی سبب ہے کہ وہ اُس حقیقی منتقم کے وجود اور ہستی سے بالکل بے خبر ہے جو گناہ کی سزا دے سکتا ہے۔
افسوس کہ اکثر انسانوں نے بدقسمتی سے اس اصول کی طرف توجہ نہیں کی اور ایسے بے ہودہ طریق گناہ سے پاک ہونے کیلئے اپنے دل سے تراشے ہیں کہ وہ اور بھی گناہ پر گستاخ کرتے ہیں ، مثلاً یہ خیال کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب دیئے جانے پر