میں طلوع کرتا تھا اور اب وہ ہمیشہ کیلئے پوشیدہ ہے ایسا ہی وہ حقیقی آفتاب جو دلوں کو روشن کرتا ہے ہرروز تازہ بتازہ طلوع کرتا ہے۔ اور اپنی قولی فعلی تجلیات سے انسان کو حصہ بخشتا ہے ۔ وہی خدا سچا ہے اوروہی مذہب سچا جو ایسے خدا کے وجود کی بشارت دیتا ہے اور ایسے خدا کو دکھلاتا ہے اُسی زندہ خدا سے نفس پاک ہوتا ہے۔
یہ اُمید مت رکھو کہ کوئی اور منصوبہ انسانی نفس کو پاک کرسکے جس طرح تاریکی کو صرف روشنی ہی دُور کرتی ہے اسی طرح گناہ کی تاریکی کا علاج فقط وہ تجلیات الٰہیہ قولی و فعلی ہیں جو معجزانہ رنگ میں پُرزور شعاعوں کے ساتھ خدا کی طرف سے کسی سعید دل پر نازل ہوتی ہیں اور اُس کو دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے اور تمام شکوک کی غلاظت کو دُور کر دیتی ہیںؔ اور تسلی اور اطمینان بخشتی ہیں ۔ پس اُس طاقت بالا کی زبردست کشش سے وہ سعید آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اس کے سوا جس قدر اور علاج پیش کئے جاتے ہیں سب فضول بناوٹ ہے۔ ہاں کامل طور پر پاک ہونے کیلئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پُردرد دُعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اُس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے ایسی دُعاؤں کی سخت ضرورت ہے جوگریہ اور بُکا اور صدق و صفا اور دردِ دل سے پُر ہوں۔ تم دیکھتے ہو کہ بچۂ شیر خوار اگرچہ اپنی ماں کو خوب شناخت کرتا ہے اور اُس سے محبت بھی رکھتا ہے اور ماں بھی اُس سے محبت رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ماں کادودھ اُترنے کیلئے شیرخوار بچوں کا رونا بہت کچھ دخل رکھتا ہے ۔ ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتاہے پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیے تا وہ رُوحانی دودھ اُترے اور اُسے سیراب کرے۔
غرض پاک و صاف ہونے کیلئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح دردناک