جاری رہتا ہے کہ ایک طرف وہ مکالماتِ صحیحہ واضحہ یقینیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں اور امور غیبیہ جن کا علم انسانوں کی طاقت سے باہر ہے اُن پر خدائے کریم و قدیر اپنے صریح کلام کے ذریعہ سے منکشف کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف معجزانہ افعال سے جو اُن اقوال کو سچ کرکے دکھلاتے ہیں اُن کے یقین کو33کیا جاتا ہے۔ اور جس قدر انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی یقینی شناخت کے لئے اس قدر معرفت چاہیئے وہ معرفت قولی اور فعلی تجلّی سے پوری کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرّہ کے برابر بھی تاریکی درمیان نہیں رہتی۔ یہ خدا ہے جس کے ان قولی فعلی تجلّیات کے بعد جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتی ہیں اور نہایت قوی اثر دل پر کرتی ہیں انسان کوؔ سچا اور زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے اور ایک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہوکر نفسانی غلاظتیں دُور ہوجاتی ہیں۔ اور تمام کمزوریاں دُور ہوکر آسمانی روشنی کی تیز شعاعوں سے اندرونی تاریکی الوداع ہوتی ہے اور ایک عجیب تبدیلی ظہور میں آتی ہے۔
پس جومذہب اس خدا کو جس کا ان صفات سے متصف ہونا ثابت ہے پیش نہیں کرتا اور ایمان کو صرف گذشتہ قصوں کہانیوں اور ایسی باتوں تک محدود رکھتا ہے جو دیکھنے اور کہنے میں نہیں آئی ہیں وہ مذہب ہرگز سچا مذہب نہیں ہے ۔ اور ایسے فرضی خدا کی پیروی ایسی ہے کہ جیسے ایک مُردہ سے توقع رکھنا کہ وہ زندوں جیسے کام کرے گا۔ ایسے خدا کا ہونا نہ ہونا برابر ہے جو ہمیشہ تازہ طور پر اپنے وجود کو آپ ثابت نہیں کرتا گویا وہ ایک بُت ہے جو نہ بولتا ہے اور نہ سنتا ہے او ر نہ سوال کا جواب دیتاہے اور نہ اپنی قادرانہ قوت کو ایسے طور پر دکھا سکتا ہے جو ایک پکا دہریہ بھی اس میں شک نہ کرسکے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ جیسے ہمیں روشنی بخشنے کیلئے ہر روز تازہ طور پر آفتاب نکلتا ہے او ر ہم اس قدر قصہ سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ کچھ تسلی پاسکتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں ہوں اور روشنی کا نام و نشان نہ ہو اور یہ کہا جائے کہ آفتاب تو ہے مگر وہ کسی پہلے زمانہ