کیا گیا کیونکہ اعراض خواہ صوری ہو یا معنوی فیض الٰہی سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس جگہ ہماری مراد اعراض صوری سے یہ ہے کہ ایک شخص خدائے تعالیٰ کے کلام سے بالکل منکر ہو۔ اور اعراض معنوی سے یہ مراد ہے کہ بظاہر منکر تو نہ ہو لیکن رسم اور عادت اور نفسانی اغراض اور اقوال غیر کے نیچے دب کر ایسا ہو جائے کہ خدائے تعالیٰ کے کلام کی کچھ پرواہ نہ کرے۔
غرض یہ دو خبیث مرضیں ہیں جن سے بچنے کیلئے سچے مذہب کی پیروی کی ضرورت ہے۔ یعنیؔ اوّل یہ مرض کہ خدا کو واحد لا شریک اور متصف بہ تمام صفات کاملہ اور قدرت تامہ قبول نہ کرکے اس کے حقوقِ واجبہ سے منہ پھیر نا اور ایک نمک حرام انسان کی طرح اُس کے اُن فیوض سے انکار کرنا جو جان اور بدن کے ذرّہ ذرّہ کے شامل حال ہیں۔ دوسرے یہ کہ بنی نوع کے حقوق کی بجاآوری میں کوتاہی کرنا۔ اور ہر ایک شخص جو اپنے مذہب اور قوم سے الگ ہو یا اُس کامخالف ہو اس کی ایذا کیلئے ایک زہریلے سانپ کی طرح بن جانااور تمام انسانی حقوق کو یک دفعہ تلف کر دینا۔ ایسے انسان درحقیقت مردہ ہیں اور زندہ خدا سے بے خبر۔ زندہ ایمان لانا ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان زندہ خدا کی تجلیات اور آیات عظیمہ سے فیضیاب نہ ہو۔ یوں تو بجز دہریہ لوگوں کے تمام دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کے وجود کی قائل ہے مگر چونکہ وہ قائل ہونا صرف اپنا خود تر اشیدہ خیال ہے اور زندہ خدا کی اپنی ذاتی تجلی سے نہیں ہے اس لئے ایسے خیال سے زندہ ایمان حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے انا الموجودکی آواز زور دار طاقتوں کے ساتھ معجزانہ رنگ میں اور خارق عادت کے طورپر سنائی نہ دے اور فعلی طور پر اس کے ساتھ دوسرے زبردست نشان نہ ہوں اُس وقت تک اُس زندہ خدا پر ایمان آنہیں سکتا۔ ایسے لوگ محض سنی سنائی باتوں کا نام خدا یا پرمیشر رکھتے ہیں اور صرف گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں اور اپنی شناسائی کی حد سے زیادہ لاف و گزاف اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔