کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔ اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہی بدکردار لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور سچی معرفت اور سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور صرف نفسانی جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ تمام وقت فضول لڑائی جھگڑؔ وں اور گندی باتوں میں صرف کرتے ہیں اور جو وقت خدا کے ساتھ خلوت میں خرچ کرنا چاہیئے وہ خواب میں بھی اُن کو میسر نہیں ہوتا۔ بزرگوں کی نندیا تحقیر توہین ان کا کام ہوتا ہے اور خود اندر اُن کا نفسانی غلاظتوں سے اس قدر بھرا ہوا ہوتا ہے جیسا کہ سنڈ اس نجاست سے۔ زبان پر بک بک بہت مگر دل خدا سے دُور اور دنیا کے گندوں میں غرق پھر مصلح قوم ہونے کا دعویٰ۔ ع خفتہ را خفتہ کے کند بیدار ایسے آدمی نہ خوف زدہ دل سے کسی کی بات سن سکتے ہیں نہ تحمل سے جواب دے سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تمام اسلام نشانۂ اعتراضات ہے کوئی بات بھی اچھی نہیں اور عجیب تر یہ کہ وہ اس حالت پر خوش ہوتے ہیں اور کسی دوسری قوم کے انسان پر کوئی موذیانہ ہاتھ ڈال کر خیال کرتے ہیں کہ ہم نے بہت ثواب کا کام کیا ہے یا بڑی ہمت اور جوانمردی دکھلائی ہے لیکن افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر قومیں اسی تعصب کا نام مذہب خیال کرتی ہیں۔ اور ہم اس خراب عادت سے عام مسلمانوں کو بھی باہر نہیں رکھتے ۔ پس وہ خدا کے نزدیک زیادہ مؤاخذہ کے لائق ہیں کیونکہ ان کو وہ دین دیا گیا تھا جس کا نام اسلام ہے جس کے معنے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں خود ظاہر فرمائے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔33 ۱؂۔ یعنی اسلام کے دو ٹکڑے ہیں ۔ایک یہ کہ خدا کی رضا میں ایسا محو ہوجانا کہ اپنی رضا چھوڑ کر اُس کی رضا جوئی کیلئے اُس کے آستانہ پر سر رکھ دینا اور دوسر۲ے عام طورپر تمام بنی نوع سے نیکی کرنا۔ پس یہ دین کیسا پیارا اور نیک اور پاک اصولوں پر مبنی تھا جس کی تعلیموں سے وہ بہت دُور پڑ گئے۔ اور یہ تباہی اُس وقت پیدا ہوئی جبکہ قرآن شریف کی تعلیم سے عمداً یا غلطی سے اعراض